Nice Sharing
Thanks For Sharing
اسد سلیم شیخ
کہتے ہیں گذرے زمانے اور قدیم تہذیبوں کا پتا کرنا ہو تو عجائب گھر ان میں جھانکنے کے لیے کھڑکی کا کام دیتے ہیں۔ ہمیں اس کھڑکی میں جھانکنے کے لیے پہلے ٹکٹ کی کھڑکی تک جانا پڑا۔ٹکٹ لے کر ہم مرکزی دروازے سے عجائب گھر میں داخل ہو رہے تھے کہ سامنے سے سیّد حمید رضا آتے دکھائی دئیے۔ لاہور کی تاریخ سے ان کو خاصی دل چسپی تھی۔وہ ہمیں عجائب گھر کی لائبریری میں لے گئے، جہاں پرانی الماریوں میں پڑی قدیم کتابوں کو آج کے کچھ جدید انسان ٹٹولنے میں مصروف تھے۔ ہم بھی ایک طرف بیٹھ کر عجائب گھر کی تاریخ ٹٹولنے لگے۔ گفت گو بڑھتی گئی عجائب گھر کی تاریخ کے در کھلتے چلے گئے۔ جس عظیم عمارت میں ہم بیٹھے تھے، یہ ۱۸۹۴ء میں تعمیر ہوئی، لیکن بذات خود عجائب گھر کی تاریخ ڈیڑھ صدی پرانی ہے۔ یہ علاقہ جہاں عجائب گھر قائم ہوا وہاں نواب وزیر خاں کی مشہور بارہ دری اور اس کا قائم کردہ عظیم باغ تھا ،جو نخلیہ باغ کے نام سے مشہور تھا۔ موجودہ عمارت کی تعمیر سے پہلے اس جگہ دفتر بندوبست، ٹیلی گراف آفس، عجائب گھر اور پھر انارکلی بک کلب قائم ہوئے تھے۔ بالآخر وہاں پنجاب پبلک لائبریری قائم کر دی گئی اور باقی دفاتر وقتاً فوقتاً اپنی موجودہ عمارتوں میںمنتقل ہوتے رہے۔عجائب گھر کی نئی عمارت ۱۸۹۳ء میں تکمیل کو پہنچی جب کہ ۱۸۹۴ء میں اسے عوام کے لیے کھولا گیا۔ اس سے پہلے پرانے عجائب گھر سے تمام نوادرات یہاں منتقل کرکے انھیں چھ مختلف گیلریوں میں سجا دیا گیا تھا۔ کچھ غیر تاریخی اشیا جن میں معدنیات، زرعی اور صنعتی مصنوعات وغیرہ شامل تھیں نئے عجائب گھر میں سجانے کی بجائے دیگر اداروں میں تقسیم کر دی گئیں۔ یاد رہے عجائب گھر کی عمارت کی تعمیر کے د وران سر گنگا رام بطور انجینئر کام کرتے رہے۔ ابتدائی طو رپر میوزیم کے پانچ ہال تھے جس میں اسلامک فنون، گندھارا آرٹ، انڈس آرٹ، پکچر گیلری اور اسلحہ، علاقائی تمدن، ڈاک ٹکٹوں وغیرہ کی نمایش کی گئی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت اثاثوں کی تقسیم کے معاہدے کی رو سے لاہور عجائب گھر سے ایک تہائی نوادرات مشرقی پنجاب کو منتقل کر دئیے گئے۔ ۱۹۶۶ء سے آئندہ کئی سالوں تک لاہور عجائب گھر کی تجدید کا کام ہوتا رہا جس کی نگرانی بی اے قریشی نے کی جو ۱۹۵۵ء سے ۱۹۶۵ء تک اس کے چیئرمین رہے۔ اسی اثنا میں لائبریری ، لیبارٹری، ورک شاپ، سکیورٹی، کینٹین اور گفٹ شاپس جیسی سہولتیں بھی فراہم کی گئیں۔اس گھر کی اپنی تاریخ کا در بندہوا تو اس کے اندر رکھے ہوئے انسانی تہذیب کے قدیم ترین نشانات و آثار کا مشاہدہ کرنے کے لیے داخل ہو گئے۔ سب سے پہلے چھوٹی تصاویر والی گیلری آئی۔ جس کے دونوں اطراف اکبری طرز کے لاہوری دروازے اور بھیرہ کی بنی لکڑی کی کھڑکی اور چوکھٹا ہے جس پر بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں۔ اس حصے میں مغل بادشاہوں، شہزادے، شہزادیوں، راجاؤں ، رانیوں کی چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی تصاویر اور ہاتھی دانت پر مُصوری کے نادر نمونے رکھے ہیں۔ یہ پہاڑی تصویریں ہیں جو اٹھارہویں صدی عیسوی میں کانگڑہ کے چھوٹے چھوٹے راجپوت راجاؤں کی سرپرستی میں بنائی گئیں۔ ان میں مغلیہ طرز کی جھلک نظر آتی ہے۔ البتہ اس کے اسلوب کی جاذبیت الگ نوعیت رکھتی ہے۔ یہاں وادی سندھ کی تہذیب سے تعلق رکھنے والی دنیا کی سب سے پہلی بُل کارٹ (بیل گاڑی) کا نمونہ موجود ہے۔ وہ مجسمہ سازی کا فن بھی جانتے تھے۔ ظروف کو نقش و نگار سے آراستہ کرتے تھے۔ فطرت کی دیوی یعنی ماتا دیوی کی پوجا کرتے تھے۔ ان کے یہاں فن تحریر بھی رائج تھا جو تصویروں کے ذریعے اظہار مطلب اور حروف تہجی کے بین بین تھا۔ لیکن ان کی تحریروں کو ابھی تک پڑھا نہیں جا سکا ۔ ان کے ہاں رہایش اور صفائی کا انتظام بہت اعلیٰ تھا۔ وہ لوگ بے حد صفائی پسند تھے۔ ہر گلی کے باہر کوڑا کرکٹ کے بنے پختہ اینٹوں کے کُھلے سٹور بنے ہوئے تھے۔ موہنجو دڑو کی خواتین بہت فیشن ایبل تھیں۔ ان مقامات کی کُھدائی کے دوران ملنے والے ظروف جو لاہور میوزیم کی زینت ہیں، اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ جدید ظروف سازی کا وسیع کام اس علاقے میں ہوتا رہا ہے۔ اس میں کچھ ظروف وہاں سے دریافت ہونے والی ظروف کو دیکھ کر دوبارہ بنائے گئے ہیں۔ لاہور میوزیم میں رکھے گئے گندھارا آرٹ کی تاریخ صدیوں پر نہیں بل کہ کئی ہزار سالوں پر محیط ہے۔ گندھارا آرٹ کی یہاں مقبولیت کی بنیادی وجہ یہاں گندھارا تہذیب کے وہ نایاب نمونے ہیں جو شاید دنیا میں کہیں موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم گندھارا تہذیب کی تاریخ سے آگاہی میں لاہور میوزیم نہایت اہم کردار ادا کر رہا ہے اور نہ صرف پاکستان سے بل کہ بیرون ملک خاص طور پر جاپان، سری لنکا، بنکاک سے بدھ مت کے پرستار ان نایاب نمونوں کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ لاہور میوزیم میں موجودہ گندھارا گیلری ۱۹۲۸ء میں قائم ہوئی جس میں گندھارا آرٹ کے سنگ تراشی کے فن پارے نمایش کے لیے رکھے گئے جو دوسری صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک کے ہیں۔ زمانہ قدیم میں گندھارا کا لفظ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے (خیبر پختون خواہ) میں استعمال ہوتا تھا جس میں جغرافیائی لحاظ سے پشاور اور مردان کے علاقے بھی شامل ہیں۔ گندھارا ثقافت کی حدود سوات، مالا کنڈ ، باجوڑ ایجنسیز سے لے کر پنجاب اور افغانستان کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ گندھارا گیلری سے نکلے تو دائیں جانب جدید ’’تصاویر گیلری‘‘ ہے جہاں پاکستان کے نام ور مُصوروں کی اُنگلیوں سے تخلیق ہونے والے فن کے نمونے مختلف پینٹنگز کی شکل میں موجود ہیں۔ یہ پینٹنگز پاکستان کی تہذیب و ثقافت اور ادب کی عکاسی کر رہی ہیں۔ یہاں مشہور شاعر ساغر صدیقی مرحوم کے مخصوص درویشانہ انداز کی تصویر بھی ہے۔ا س کے ساتھ سوات گیلری ہے جہاں وادی سوات کے ثقافتی نمونے، لکڑی کی مختلف اشیا ، قالین پارچہ جات اور مصوری کے نمونے رکھے ہیں۔ اس گیلری سے نکل کر بائیں جانب بڑھے تو تحریک آزادی گیلری آ گئی راستے میں لکڑی کے دروازے، کھڑکیاں اور جھروکے لگے ہوئے ہیں۔ گیلری میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے درمیان میں رکھے ملکہ وکٹوریا کے بُت پر نظر پڑی۔ یہ بُت ۱۹۰۰ء میں چیئرنگ کراس پر ماربل پویلین میں نصب کیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اسے وہاں سے ہٹا دیا گیا اور اسے یہاں منتقل کیا گیا۔ ملکہ وکٹوریا کے بُت کے بائیں جانب ایڈورڈ ہفتم اور دائیں جانب جارج پنجم کے بُت رکھے ہیں۔ گیلری میں اردگرد برطانوی دور کا اسلحہ، بندوقیں، زریں، سینہ بند، خنجر، تلواریں، افغان علاقے کا اسلحہ، تانبے کا بنا ہوا بگل اور چھوٹی توپیں رکھی ہیں۔ اس سے ملحقہ علاقائی تمدن کی گیلری ہے جہاں شمالی علاقے، ریگستان، ڈیرہ غازی خان اور پنجاب کے ثقافتی نمونے موجود ہیں۔ شیشے کے فریم میں بند ایک پنجابی مٹیار، روایتی زیور اور لباس سے آراستہ، پاؤں میں کُھسہ پہنے شرماتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے۔ یہیں سے کچھ سیڑھیاں اُوپر کو جارہی ہیں اور ماتھے پر پاکستانی بحریہ کا تاریخی پرچم آویزاں ہے یہ پرچم ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ۷,۸ ستمبر کی درمیانی شب ہندوستان کے قلعہ دوارکا پر حملے کے وقت پاکستانی بحریہ کے جہاز بابر پر لہرا رہا تھا۔ اسی پرچم کے سائے میں اوپر گئے تو تحریک آزادی پاکستان کی دست کاریاں، ڈاک ٹکٹیں اور سِکّہ جات ہیں۔یہاں تحریک آزادی کی دو سو سالہ کہانی کو تصاویر کی زبانی بیان کیا جا رہا تھا۔ حیدر علی، سلطان ٹیپو شہید سے لے کر ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کے عظیم واقعہ تک کے حالات کی نادر و نایاب تصاویر دیواروں پر آویزاں ہیں۔ ترتیب کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے پاکستان کی منزل قریب آتی گئی۔ جب اس منزلِ مقصود پر پہنچے تو سامنے شہیدان وطن کی تصاویر روشنی میں چمک رہی تھیں، واقعی شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ( کتاب’’ٹھنڈی سڑک:مال روڈ لاہور کا تاریخی ، ثقافتی اور ادبی منظر نامہ‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭
Similar Threads:
Nice Sharing
Thanks For Sharing
Thanks for nice sharing.............................
good info
ღ♥ღ* ρяιηcєѕ *ღ♥ღ
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks