پرانی محبتیں کمال ہوتی ہیں ۔۔۔ چنگاری کی مانند سلگتے سلگتے کسی بھی لمحے آن کی آن بھڑک کے آلاؤ بن جاتی ہیں اور بہت کچھ جلا کے بھسم کردیا کرتی ہیں خواہ اچھی بھلی چلتی ازدواجی زندگی ہو یا اپنی کوکھ سے پیدا اولاد ہو ،اور رہا شوہر تو وہ بھلا کس گنتی میں ہے اور خصوصاً جبکہ وہ نوائے ساز دل پہ رقیب شمار کیا جاتا ہو ۔۔۔۔ پنکی پیرنی کی واردات بھی کچھ ایسی ہی ہے یہاں ذرا ٹھہریں اورخدا کو حاضر و ناظر جان کے ذرا سچ سچ بتائیں کہ اگر خدانخواستہ کسی روز آپکی بیوی آپ سے طلاق مانگے ۔۔۔۔۔ جبکہ کوئی بڑی وجہ بھی موجود نہ ہو تو آپ کیا کریں گے ارےے آپ تو گھبرا گئے ۔۔ چلیں میں اس صورتحال کو اپنے اوپر منطبق کرلیتا ہوں یعنی اگر کسی دن مجھ سے میری بیوی اچانک میرے ساتھ اپنی 26 سالہ ازدواجی رفاقت کو ختم کرنے کا مطالبہ کردے جبکہ ہمارے درمیان نہ تو کوئی بڑی وجہء تنازع ہو ( کیونکہ ہلکی پھلکی جھڑپیں یا چھوٹی موٹی وجوہات تو اکثر گھروں میں موجود ہی رہتی ہیں) اور نہ ہی کوئی معاشی وجہ موجود ہو یعنی یہ کہ اگر میں گھر کی کفالت نہیں کرپاتا یا بدسلوکی وغیرہ وغیرہ بلکہ وہ میرے بارے میں اچھی رائے کا اظہار بھی کرتی ہو تب بھی وہ طلاق مانگے تو آپ بتائیں کہ مجھے اسکے اس مطالبے کے جواب میں کیا کرنا چاہیے ؟؟
شریعت کا جواب تو اس ضمن میں بالکل واضح ہے لیکن عام اخلاقی ضابطوں کی رو سے بھی جواب یہی ہے کہ ایسی بیہودہ باتوں پہ کان بھی نہ دھرنا چاہیے ۔۔ لیکن اگر میری جگہ کوئی بیحد سلجھا ہوا متحمل مزاج اور ٹھنڈے ذہن کے فرد ہو اور اسکے ساتھ بھی ایسا ہو تو وہ کم ازکم یہ تو ضرور کرے گا کہ چند بڑوںاور مخلص لوگوںکو بیچ میں ڈالے گا اور طلاق کے اس مطالبے کی اصل وجہ بالضرور معلوم کرے گا اور اپنی سی مفاہمتی کوشش لازماً کرے گا کہ اس ضد کو ختم کرایا جائے اور جگ ہنسائی سے بچاجائے اور اچھی بھلی چلتی آئی اس طویل و خوشگوار ازدواجی داستان کا باب یوں بند ہونے سے روکا جائے ۔۔۔ کیونکہ یونہی دل بھرجانے کے سبب یا بے وجہ طلاق تو صرف مغرب کا چلن ہے اور ہمارے یہاں جو ایسا کرے اسے بدچلن کے سوا اور کیا کہا اور سمجھا جائےگا خواہ بدچلنی پہلے سے نہ بھی ہوا اور اس کا آغاز اسی مطالبے کے ساتھ ہی شروع ہوا ہو ۔۔۔ میں یہاں غلام احمد بلور کو ان کی حق بیانی پہ داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ سچ بولنے کی توفیق ہوئی بھی تو محض انہی کو کہ جنہوں نے عمران خان کی تیسری شادی کی مذمت اس لیے کی ہے کہ اس میں ایک گھر بسانے کے لیے ایک گھر توڑا گیا ہے
میرے مؤقف کی بنیاد بھی یہی ہے جو غلام احمد بلور کی ہے کیونکہ بات یہ نہیں کہ نکاح پہ کوئی اعتراض ہے جو کہ لاریب سنت ہے لیکن شریعت مطہرہ میں محض دل کے معاملے پہ اپنے رہتے بستے ازدواجی نشیمن کو آگ لگادینے جیسی خرافات اور ایسی فضولیات کی مطلق کوئی گنجائش نہیں ، ہرگز نہیں۔ اور یہاں تو معاملہ ایک ایسی شادی کا ہے کہ جس میں منکوحہ نے اپنی٢٨برس کی کامیابی سے چلتی شادی کو محض اپنی محبت یا ٹھرک کی خاطر قربان کرڈالا اور پانچ بچوں کی ماں اور دو بچوں کی نانی ہوتے ہوئے اور ایک پیار کرنے والے نہایت ذمہ دار نیک نام و خوشحال فرد سے طلاق کا مطالبہ کردیا جو اس نے محترمہ کےجنون کو دیکھتے ہوئے اور کسی جھگڑے اور تھکا فضیحتی سے بچتے ہوئے پورا کردیا اور پھر طلاق ہوتے ہی اورعدت شروع ہوتے ہی درون خانہ بیتابی سے فٹافٹ یہ بیاہ رچالیا گیا تاکہ کوئی اچانک رخنہ کھنڈت نہ ڈال دے ۔۔۔ لیکن اس نکاح کو ظاہر کرنے کے بجائے پھر وہی پرانا تماشا دہرایا گیا جو ریحام خان کے معاملے میں کیا گیا تھا کہ اسے دو ماہ بعد منعقد کیا گیا ظاہر کیا گیا ہے۔
مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے وقت کے سپر ہیرو کے لیے نہاں خانہء دل میں موجود سلگتی ہوئی پرانی محبت پانے کے لیے تصؤف کا سہارا لے کر بڑی محنت شاقہ سے یہ سب نکاحی تانا بانا بنا گیا ہے یقیناً یہ ادھیڑ عمر بی بی اس وقت ایک نوخیز الہڑ مٹیار رہی ہوگی کہ جب عمران خان جوان تھے اور لیڈی کلر کا خطاب رکھتے تھے ۔۔۔ کیونکہ الہڑ مٹیاریں ہوں یا شہری دوشیزائیں ، سبھی کے دلوں پہ راج کرتے تھے پھر جب وہ ایک پختہ کار کپتان کے طور پہ ورلڈ کپ جیت کر لائے تھے اور کھلاڑی سے لیجینڈ بن گئے تھے۔۔۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے انکی پرواز اس قدر بلند ہوگئی کہ دیس کے آسمان کی حدود سے باہر چلی گئی اور معاملہ ارب پتی تاجر گولڈ اسمتھ کی بیٹی جمائما سے شادی تک جاپہنچا اور پھر چند برس کے بعد سیاسی اولوالعزمی راہ میں حائل ہوتے کچھ ایسے ناقابل حل مسائل نے جنم لیا کہ اس جوڑے کے لیے طلاق کے سوا اور کوئی رستہ ہی نہ رہا تھا ۔۔۔ اس رشتے کے خاتمے کے بعد اس وقت یوں لگ رہا تھا کہ یقیناً خان اب دوسری شادی نہیں کرے گا کیونکہ سیاسی رستے پہ وہ بہت دور نکل آیا تھا اور اسکی پارٹی مقبولیت کی بلندیوں پہ جاپہنچی تھی اور اب بے پناہ مصروفیات میں ان چونچلوں کے لیے وقت ہی بچتا نہیں دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔ بے پناہ جلسوں ، جلوسوں، نے اسے سیاست کے سوا کسی اور کام کا نہ چھوڑا تھا ۔۔۔ تاہم وہ دھرنے میں دھرلیا گیا اوردیسی کپڑوں میں مغربی انداز کے ساتھ مائیک بردار ریحام خان نے اسے ایسا گھیرا کہ شادی کرتے ہی بنی ۔
اس کے بعد کی داستان کیا دہرائی جائے کہ روایتی سی ہے اور ریحام کے بیانات کی حد تک المناک بھی۔۔۔ کیونکہ جہانگیر ترین نے ساس اور نعیم الحق نے سسر بننے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور پکی عمر میں کچے کانوں والے خان کو اونچی ہواؤں میں اڑتی ریحام سے مسلسل ایسا بدظن کیا کہ وہ ذرا لندن کیا گئی ، اس کے پیچھے بنی گالا کے پھاٹک فٹافٹ بند کردیئے گئے ۔۔۔۔ پھر مسلسل انتخابی و ازدواجی ناکامیوں سے دل برداشتہ خان کامیابیوں کی راہ کھوجنے کے لیے تعویز گنڈوں کی دنیا کا اسیر بن گیا کہ جہاں کا رستہ اس نے پہلی بار 2013 کے انتخاب میں پارٹی کی شکست کے بعد دیکھا تھا اور اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک فرد نے یکطرفہ محبت کی ہاری ہوئی بازی جیتنے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ درد محبت کی سوزش میں مبتلا ہوئی یہ خاتون کئی برس قبل ہی اپنا غم بھلانے کو اس تعویزی و معرفتی رستے پہ گامزن ہوچکی تھی ۔۔۔ چھیاسٹھ سالہ خان جس کا جسمانی طور پہ ابھی تک ایسا کچھ خاص نہیں بگڑا ہے اور اب بھی بہتیری دوشیزائیں اس پہ مرتی ہیں ، تو لپک کے اس سے رابطے بنائے گئے اور وہ آناً فاناً نصف صدی کی پنکی پیرنی کے ہاتھوں اک نئی طرز کے خود ساختہ تصوف کے جال میں جکڑ لیا گیا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے خاور فرید مانیکا کے مہکتے بستے چمن کو خزاؤں نے آلیا ۔
اس کے بعد کی کہانی زیادہ تر آشکار ہوچکی ہے اور جو تھوڑی بہت نہاں ہے تو وہ بھی جلد ہی عیاں ہوجائےگی ۔۔۔ آخر میں اس داستان کا حاصل یہ ہے اور مجھے بس یہی کہنا ہے کہ یونہی بے وجہ طلاق کا تصور صرف مغرب میں ہے ورنہ ہماری خواتین تو جب ایک بار کسی کے ساتھ بابل کی دہلیز عبور کرلتی ہیں تو اپنی ہرطرح کی سوچیں وہیں پیچھے چھوڑ آتی ہیں اور پھر اگر انکا ہاتھ تھامنے والا ویسا اچھا نہ بھی نکلے تب بھی کسی نہ کسی طرح اس رشتے کو نبھانے کی کوششیں کرتی ہی چلی جاتی ہیں اور اگر بچے بھی پیدا ہوجائیں تو پھر ان کی خاطر برداشت اور قربانبوں کی ہر سطح سے گزر جاتی ہیں ۔۔۔ عمران خان کی یہ تیسری شادی کوئی عام سی شادی نہیں ہے کیونکہ ملک بھر کے ہرفرد کی نظریں اس طرف لگی ہیں اور اب یہ معاملہ محض دلاںدے سودے والا نہ سمجھا جائے کیونکہ اگر اس طرز عمل کی مخالفت نہ کی گئی تو کسی بھی خان کے سبب یا کسی پنکی پیرنی کی وجہ سے ، کسی دن بھی ، بے وجہ گلشن گھرہستی اجاڑ دینے والی یہ آگ ہمارے آپ کے گھروں تک بھی پہنچ سکتی ہے اور ہمارے معاشرتی تانے بانے کو جلاکے بھسم کر سکتی ہے۔


بشکریہ سید عارف مصطفٰی