اردو شاعری اور رنگ تصوف
بہ حوالہ
مقصود حسنی
آج کے اس سمینار کے عنوان کے تحت ہمیں دو چیزوں کا خلاصہ کرنا ہے
تصوف کیا ہے؟
شاعری کیا ہے؟
پھر شاعری میں رنگ تصوف پر بحوالہ مقصود حسنی بات کرنی ہے۔
حضرت محمد بن احمد المقری رحمتہ اللہ علیہ
تصوف باری تعالی کے ساتھ استقامت کا نام ہے حضرت ابو حفص حدود نیشاپوری کے مطابق
تصوف مکمل ادب ہے،ہر وقت ،ہر مقام اور ہر حال میں ادب ہے ،جو اوقات ادب قائم رکھے وہ مقام آدمیت پر سرفراز ہوتا ہے
حضرت ابوالحسن نوری رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے تصوف رسوم وعلوم نہیں بلکہ مکمل اخلاق ہے۔ اگر رسوم میں داخل ہوتا تو مجاہدہ ہوتا،اگر تعلیم کا حصہ ہوتا تو تعلیم ہوتا،فی الحقیقت یہ اخلاق میں شامل ہے ، جب تک تو اسے اپنے اندر تلاش نہ کرلے،جب تک تو اسوہء حسنہ کے مطابق خود کے حالات و معاملات کو ٹھیک نہیں کریگا،خود کا انصاف نہ کریگاتب تک تجھے یہ حاصل نہیں ہوسکتا ۔
حضرت مرتعش رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
تصوف نیک خلق کا نام ہے
حضرت ابو الحسن ابو شنجہ نے کہا
تصوف آج کا نام ہے۔بغیر حقیقت کے یہ اصل میں یہ حقیقت ہے۔بنا نام کے یہ نام ہے ۔
کشف المحجوب ۔۔۔۔۔عثمان ہجویری
صحابہ کرام رضوانہ میں اسکا نام نہیں تھا۔صحابہ کرام رضوانہ اجمعین اور تابعین رحمتہ اللہ علیہماکے زمانے میں بھی یہ نام نہیں تھابس یہ ایک حقیقت تھی ،جو سب پر جاری و ساری رہتی تھی ۔ جبکہ آج یہ صرف ایک نام ہے۔
المختصر
تصوف قرآن و سنت کی روشنی میں ڈاکٹر غلام قادر لون کے الفاظ میاں تصوف حال ہے قال نہیں ہے ۔
تصوف تجربہ ہے جس سے گزرا تو جاسکتا ہے،کہا نہیں جاسکتا ۔
اب آئیں ذرا شاعری کی طرف بھی نظر ڈال لیں
بقول بابا مقصود حسنی شاعری ان امور کی پابند ہے
فکری اور صوتی آہنگ،تبسم ،چنچل پن،غنایئت،حسن شعریت کا التزام ،تشبیہ استعارہ،علامتیں،تلمیحات،اور شعری صنعتوں کا فطری اہتمام،کم لفظوں میں بہت زیادہ کہنا،ریشمیت ،نزاکت،والہانہ پن اور لفظوں کی مرتبہ نشست و برخاست کا نام شاعری ہے۔ مثال کے طور پر انکی ایک ہائیکو دیکھیں
دیکھ کے چاند مرے آنگن کا
جانے کیوں پھیکا پڑ جائے
چنچل روپ بہاروں کا

بقول جون ایلیا
دیباچہء شاید ۔نیاز مندانہ سے اقتباس شاعر کی فطرت کا ارتفاع کا جمالیاتی زور پر ہوتا ہے یہاں شاعر سے مراد ایک ایسا شخص ہے،جس کے نفس میں احساس ،تخیل ،تعقل ،اور جذبہ ہم آہنگ ہوکر ایک تخلیقی وحدت کی شکل اختیار کر لیتی ہیں ،اور یہ تخلیقی وحدت بامعنی صوتی وحدتوں (لفظوں)کی غنائی تالیفات میں صورت پذیر ہوکر شاعری کہلاتی ہے
الغرض بہترین الفاظ کی بہترین انداز میں ادائیگی شاعری کہلاتی ہے
بابا مقصود حسنی کا تعلق سر زمین پاکستان سے ہے ۔قصور جو لاہور سے پنسٹھ کلومیٹر دور ایک شہر ہے،وہاں سے وابستہ ایک صوفی خاندان کے وارث جنکا سیدھا تعلق حضرت سیدنا حسن مثنی بن حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے ہے، کے جانشین بزرگ صوفی،صحافی،ادیب اور شاعر ہیں ۔دنیاوی اعتبار سے کئی ڈگریوں کے مالک شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے آپکو مسٹر اردواور جناتی ادیب کے نام سےجانا جاتا ہے ۔زندگی اور ادب کا کوئی کونا ایسا نہیں جس پر انہوں نے اپنا قلم نہ اٹھایا ہو۔اب تک ان پر کئی تحقیقی مقالات لکھے جا چکے ہیں ۔
آئے اب خود انکی زبانی سن لیں تصوف کیا ہے۔
تصوف ایسا پوشیدہ اور پیچیدہ یا الجھا ہوا فلسفہ نہیں ہے،کہ اسکی تہہ در تہہ گتھیاں سلجھائی جائیں ۔۔۔۔۔سادہ سی بات ہے، ہاں عمل اتنا آسان بھی نہیں۔ اس کا بنیادی اصول ہے میں ناہی سبھ توں،ہے کچھ قائم بال ذات نہیں ۔اسکی ہیئت میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔آخر اسکی موجودہ حالت ختم ہوجاتی ہے۔انسان جملہ مخلوقات سے معتبر ہے ۔۔۔۔۔۔۔معتبر ہونے کے سب عشق میں مبتلا ہوا،کسی اور مخلوق کی نصیب میں عشق نہیں ہوتا۔برا ق ہی کو لے لیں،ایک مقام پر جاکر اسے اپنی فنا کی فکر لاحق ہوگئی،اس نے با طور براق یہ فریضہ انجام دیا تھا۔حضور کریم صل اللہ علیہ و سلم اس پر سوار تھے۔وہ انسان نہ تھا۔ نشہ کی کیفیت سے دو چار نہیں ہوا۔بلال رض سلیمان فارسی،اویس قرنی ہوتے تو عشق کے سبب صورت حال مختلف ہوتی۔حضور صل اللہ علیہ و سلم ملنے کسے جارہے تھے،اس سے ملنے کے لئے ایسی ہزاروں جانوں کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے،وہ انسان نہیں تھا اسلئے اس حوالہ سے سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔یہ کام حضرت منصور یا سرمد ہی کرسکتے تھے عشق کی دو سطحیں ہیں
پہلی سطح یہ ہے کہ زندگی اسی اطوار سے گزارنا ہے جس اطوار سے گزارنے کا حکم دیا گیا ہے ،کسی بھی صورت ،حالت ،کیفیت ،موقع اور ضرورت پر اللہ کا وہ حکم جو حضور صل اللہ علیہ وسلم کے زریعہ ہم تک پہنچا ہے،سے انحراف یا اس سے برعکس کرنے یا کہنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔اگر کہتا ہے یا کرتا ہے تو وہ میں ناہیں سبھ توں سے متعلق نہیں ہوتا ۔وہ اس دائرے سے باہر ہوجاتا ہے ۔
عشق کی دوسری سطح پر انسان خود عامل ہوتا ہے،دوسروں کو عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔یہ کام انبیاء کرام اور حسین ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ جیسے لوگ ہی کرسکتے ہیں ۔وہ احکام اللہ کی عمل داری کے لئے کسی بھی سطح تک جاسکتے ہیں ۔وہ مجسم امر ربی ہوتے ہیں ۔
صوفی اور عموم میں فرق ہوتا ہے ۔عموم اچھا کام جنت کی خواہش میں کرتے ہیں جبکہ صوفی جو پہلے ہی اللہ کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے اس پر اللہ کی محبت غالب ہوتی ہے اسے اللہ ہی اللہ سے درکار ہوتا ہے ۔
غالب نے اسی حوالے سے کہا تھا
بس کہ مشکل ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
یہ سب کہنے میں آسان اور عمل درآمد میں قطعی آسان نہیں ہے۔ ہر دو صورتوں میں عشاق بہت کم دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں غالب پھر ذہن میں آ ٹپکا
طاعت میں تار ہے نہ مے وانگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دے کوئی لیکر بہشت کو
ان کے کلام میں موجود ایک اور ہائیکو دیکھیں جس میں شاعر اور صوفی دونوں موجود ہیں ۔
سورج کو روک لو
شہر عشق کو جانے والا
کوئی سر سلامت نہیں رہا
آئیے بابا مقصود حسنی کے صوفیانہ کلام کی کچھ نمونے دیکھ لیں ۔
بے آنت سمندر
آنکھ میں پانی
آب کوثر
شبنم
گل کے ماتھے کا جھومر
جل،جل کر
دھرتی کو جیون بخشے
گنگا جل ہوکہ
زم زم کے مست پیالے
دھو ڈالیں کالک کے دھبے
جل اک قطرہ
جیون ہے بےانت سمندر

دوسری نظم حاضر ہے
اک پل
آکاش اور دھرتی کو
اک دھاگے میں بن کر
رنگ دھنک اچھالے
دوجا پل
جو بھیک تھا پہلے کل کی
کاسے سے اترا
ماتھے کی ریکھا ٹہرا
کرپا اور دان کا پل
پھن چکر مارا
گرتا ہے منہ کے بل
سلوٹ سے پاک سہی
پھر بھی
حنطل سے کڑوا
اترن کا پھل
الفت میں کچھ دیکر
پانے کی اچھا
حاتم سے ہے چھل
غیرت سے عاری
حلق میں ٹپکا
وہ قطرہ
سقراط کا زہر
نہ گنگا جل
نیم کا پانی
نہ کڑوا نہ کھارا
وہ تو ہے
آب زم زم
اس میں رام کا۔ بل
ہر فرزانہ
عہد سے مکتی چاہے
ہر دیوانہ عہد کا بندی
مرمٹنے کی باتیں
ٹالتے رہنا
کل تا کل
جب بھی
پل کی بگڑی کل
در نانک کے
بیٹھا بےکل
وید حکیم
ملاں پنڈت
پیر فقیر
جب تھک ہاریں
جس کے ہاتھ میں وقت کی نبضیں
چل محمد کے در چل

ایک پابند شعر دیکھیں
تم لئے پھرتے ہو دستار فضیلت
رہتے ہیں لوگ یہاں سر بریدہ

میرا ان سے اگلا سوال تھا
ایک ادیب ،شاعر اور صوفی کے نظریہ تخلیق و خلق میں اور تجربہ میں کیا فرق ہے۔
ان کا جواب تھا
غیر صوفی ادیب و شاعر دلچسپی پیدا کرنے کے لئے مبالغے اور لگی لپٹی سے کام لیتے ہیں ۔صوفی شاعر و ادیب جو اور جیسا کی پیش کے لئے وجدانی اور والہانہ پن کی تیکنیک سے کام لیتے ہیں اور ان کی تان ذات باری پر ہی جاکے ٹوٹتی ہے ۔شخصی بےراہ روی کی نشاندہی سے صوفی دور رہتا ہے
معاملہ وہی رہتا ہے ،لیکن غیر متعلق اور غیر مستعمل طور اور چلن اختیار کرنا تجربہ ہے ،اسے رواج ملنا دوسری بات ہے۔
بابا کی بات سے مجھے علامہ اقبال یاد آئے جن کے تصوف کے سفر کو میں دو اشعار میں بیان کرنے کی کوشش کرونگی۔جب عشق ہوا تو بیساختہ کہا
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آلباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
جب عشق انتہا کو پہنچا تو کہا
ترے عشق کی انتہا چاہتاہوں
میری سادگی دیکھ ،کیا چاہتا ہوں
جب وصل ہوا تو صرف یہ دعا مانگ کے رہ گئے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے ۔
تصوف وہ رنگ عشق ہے جو چڑھا تو پھر ہر رنگ بے رنگ ہوگیا
میرا ایک شعر ملاحظہ کریں
کیا برتاؤوں کہ تیرے جانے سے
کیسی بے رنگ ہو گئی ہوں میں

واپس آئیں بابا مقصود حسنی کی بات ہورہی ہے تو انہی کی بات چلے انکا کچھ اور رنگ تصوف ملاحظہ ہو ۔
میں تم کو کیسے سوچ سکوں گا
تم وہاں ہو جہاں میں نہیں
میں حد، تو ان حد
میں زمین تو آسمان
ہاں یہ تشفی ہے
میں تیری شناخت ہوں
تو میرے ہونے کا ثبوت ہے
اب میں تجھے تیری اجازت سے
سوچتا ہوں

اسی رنگ میں میرا ایک شعر
تیراہونا میرے ہونے کی گواہی ٹہرا
تو نہ ہوتا تو میرا ہونا کہاں ہو پاتا

بابا مقصود حسنی کی ایک اور نظم ملاحظہ ہو
مسکان کے بطن سے
وہ صاحب جلال
دفعتا جمال میں آیا
پھر تھوڑا سا مسکرایا
مسکان کے بطن سے تو ترکیب پایا
رتبہ لا مکان ملا
پھر تو سلسلہ چل نکلا
تیری پلکوں کی حقیر جنبش سے
قطار فرشتوں کی لگ گئی
تری انگلی کے ارتعاش سے
مہتاب دو لخت ہوا
جنت بنی سورگ بنا
ودھی کا یہی ویدن تھا
سب دیو خلق ہوے
تری زلف کی بےخیالی نے
آسمانوں کو وجود دیا
ستارے بےنشان سے
ترے ہونے کا نشان ہوئے
گردشوں کے امکان بنے
ترے ہونٹ کچھ کہنے کو کھلے
خالق دو جہان نے
تیرے ہونٹوں کو
آئین فطرت کہا
وہ قطرے سے دریا ہوا
جس جبین کا تو مقدر ہوا
جو تجھ سے گیا
جہان سے کیا، خدا سے گیا

اسی رمز میں میرا ایک شعر دیکھیں
آپ شامل رہے کہانی میں
ورنہ قصہ کہاں مکمل تھا

آئیے بابا مقصود حسنی کی ایک اور نظم دیکھیں
ثمر
سورگ کے دیو
عرش کے فرشتے سارے
مسجد و محراب
کلیسا و مندر سارے
دیر و حرم
اہل صوف کے میکدے سارے
کہکشائوں کے سلسلے
زیست کے واسطے سارے
نمو کی شبنم طراز یاں
بہاروں کی شبنم پردازیاں
حضور کے عشق کی
مسکینوں کا ثمر ہیں

تقدیر ہستی
تیرے دیکھے سے
میری روح میں مسلمان اتری
تیری یکتائی
خدا کی یکتائی پر
حجت ٹہری
تیری آنکھوں میں
خلد و سورگ کے نظارے ہیں
تقدیر ہستی
تیرے قدموں کی خاک میں
خاک ہوتی ہے

ایک اور نظم ملاحظہ ہو
آج یہ کھلا
جیون کی رگوں سے
ساری شبنم نچوڑ کر
کل تک اتارتا رہا
آج مگر یہ کھلا
وہ سب
ترے عرق جبین کے
ایک قطرے کا پاسنگ نہ تھا
انکی تقریباً تمام تر شاعری پر تصوف حاوی ہے اپنے ایک شعر کے ساتھ اپنی بات کو اختتام پذیر کر رہی ہوں
مت دیکھ مرے ظاہری ساغر کو میرے دوست
شاید کہ چھیتڑوں میں چھپا اک گہر ہوں میں

مہر افروز
الرحمان
تھرڈ فیز ۔کے ایچ بی کالونی
ڈی ۔این ۔کوپ۔
دھارواڑ ۵۸۰۰۰۸
کرناٹک انڈیا
انڈیا
۹۰۰۸۹۵۳۸۸۱