Moona (05-07-2016)
پیپلز پارٹی کا مستقبل
0
کیا فقط کراچی کا جلسہ پاکستان پیپلز پارٹی کو دوبارہ فعال کر سکے گا ؟۔ جلسہ بھی ایسا جسے کامیاب بنانے کے لئے آصف علی زرداری سمیت تمام ٹاپ لیڈر شپ © پی پی پی کے روایتی کارکنوں کی تلاش میں شہروں، قصبوں اور گوٹھوں کو کھنگال رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے پی پی پی کا کارکن گیا کہاں؟۔ کاش جب اقتدار کے دنوں میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا گیا، شہید ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی گھاٹ کو جاتے قدموں کی مقصدیت کو بھلایا گیا ، اس وقت سوچا ہوتا ایک دن آئے گا جب پیپلز پارٹی پنجاب، خیبر پختونخواہ، بلوچستان میں مکمل طور پر غیر فعال ہو جائے گی؟۔اب ٹی وی شوز میں بھرپور ڈھٹائی سے کہا جا رہا ہے ”پیپلز پارٹی ہی اصل اپوزیشن ہے“۔ یہ صریحاً جھوٹ ہے۔عملًا پیپلز پارٹی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔منظور وٹو اور رحمن ملک جیسے افراد بہترین قاصد یا پیغام رساں تو ہوسکتے ہیں وژنری لیڈر نہیں۔ دیگر کئی خدمت گذاروں کی حدوں کو توڑتی مداخلت پیپلز پارٹی کے تشخص کو برباد کر گئی۔ طالبان کو تڑیاں لگانے کا معاملہ ہو یا الطاف حسین کے پاﺅں پکڑنے کا مرحلہ۔ اپوزیشن کے کیس کھلوانے کی دھمکیاں ہوں یا پی پی پی وزراءکی کرپشن کے ثبوت مٹانے کی سعی، ان قاصد نما کرداروں نے مختلف روپ دھار کر پیپلز پارٹی کے روایتی غریب دوست تشخص کو بری طرح مجروح کیا ہے۔
پی پی پی کی عدم مقبولیت میںہچکچاہٹ پر مبنی ان گنت ایسے فیصلے بھی شامل ہیں جو صریحا رائے عامہ کے برخلاف تھے۔ کیا ضرورت پڑی تھی جیل کی یاریاں نبھانے کی۔ کس زعم میں کرپشن کلچر کو فروغ دیا گیا۔ کہیں یوں تو نہیں اقتدار سنبھالتے ہی پارٹی قائدین بھانپ چکے تھے یہ پیپلز پارٹی کا آخری دور حکومت ہے؟ کیا دوبارہ نہ پلٹنے کے انہی خدشات کے پیش نظر ہر قابل ذکر شخصیت کو زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرنے کی غیر اعلانیہ چھوٹ دی گئی؟ بالخصوص آخری سالوں میں جو اودھم مچا وہ پارٹی کے لئے سیاسی خودکشی سے کہیں آگے کی چیز تھی۔ پیپلز پارٹی کا تھنک ٹینک بھی واضح پالیسی بنانے میں ناکام ثابت ہوا ۔ نہ ہی اسے آزاد میڈیا کی تباہ کن طاقت کا احساس ہوسکا اور نہ ہی وہ افواہوں کے قلعے سوشل میڈیا کی اہمیت کو بھانپ سکا۔ اس کی نظروں میں کوڑے ، پھانسی گھاٹ اور شہادتوں سے اٹھتی داستانیں زیادہ اہم تھیں۔ انہیں تو یہ توقع تھی المیاتی نغمے میں چھپا درد ووٹرز کو تیر پر مہر لگانے پر مجبور کر دے گا۔ یوں ساٹھ ستر نشستیں اور بلاول بھٹو کی لانچنگ مل کر پی پی پی کو مستقبل میں زندہ رہنے کا جواز فراہم کر دیں گی۔
کون بلاول؟۔ جس کے بارے میں ایم کیو ایم والے فرماتے ہیں اس نے لاڑکانہ کا پانی ہی نہیں پیا۔ جس کے تشخص کو ابتداءمیں ہی ثقافتی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔ کہاں بھٹوز کی افسانوی لانچنگ اور کہاں بلاول کی ویرانوں میں اٹھکیلیاں۔بلاول تو ایک بہت ہی دور بیٹھا نوجوان ہے جسے پاکستانی سیاست کی چوٹیوں پر برپا اقتدار کی جنگ کی کوئی سمجھ نہیں۔ جسے سمندروں جیسی گہرائیوں میں قید عوامی محرومیوں کا کوئی ادراک نہیں۔جس کی اجڑے قصبوں کے چائے خانوں پر ماتم بیروزگاری کرتے نوجوانوں تک کوئی رسائی نہیں۔جس کی بنجر کھیتوں کنارے حقہ گڑگڑاتے کسانوں سے کوئی شناسائی نہیں۔ وہ فی الوقت ایک سیدھا سادا برٹش گرومڈ نوجوان ہے، جو پاکستان کے گلی کوچوں کے سماجی مسائل سے کوسوں فاصلے پر اور تحت الشعور میں سیاست سے دور رہنے کی خواہش دبائے بیٹھا ہے۔
پارٹی قائدین کی زنگ آلود ساکھ کا بوجھ لادے وہ بھلا کس طرح پیپلز پارٹی کے تاریک مستقبل کو روشنیوں میں بدل سکتا ہے؟ کیا اس کے اعصاب اتنے مضبوط ہیں پر آسائش زندگی چھوڑ کر بھیانک کرپشن میں ڈوبی پارٹی کو ابھارنے کی تگ و دو کر سکے؟ وہ سفر کہاں سے شروع کرے گا؟ کیا پرائمری یونٹس کی بحالی سے؟ یہ پرائمری یونٹس کس حال میں ہیں؟ صرف عہدوں اور لسٹوں کی حد تک، یا ان گلا کھنگارتے بوڑھوں تک جو شہید بھٹو کی یادوں تلے بقیہ ایام پورے کر رہے ہیں۔ نوجوان کب کے پرائمری یونٹس کی ممبر شپ لینا چھوڑ چکے۔ جو بچے کھچے اراکین تھے وہ پکے ہوئے سرخ بیروں کی مانند ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔ اکثریت تحریک انصاف میں جانے کی خواہشمند ہے جبکہ بقیہ سیاسی تنہائی کے میدانوں میں بھٹک رہی ہے۔ بہت مشکل، بہت ہی مشکل ہوگا پیپلز پارٹی کے لئے کم بیک کرنا۔ہاں البتہ ایک صورت ہو سکتی ہے۔ جناب آصف علی زرداری مکمل طور پر پس پردہ چلے جائیں۔ میر مرتضی بھٹو کی اولاد کو گلے لگایا جائے۔ جونئیر بھٹو یا فاطمہ کو آگے لایا جائے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جو بالآخر پاکستان پیپلز پارٹی کو نئی اٹھان دے سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کیا ایسا ممکن ہو سکے گا؟۔ تقریبا ناممکن۔ نتیجہ ،ہر گذرتا دن پی پی پی کی عدم مقبولیت میں اضافہ ہی کرے گا۔ تاوقتیکہ راکھ کے ڈھیر میں بدلتے نظریات زمانے کی آندھیوں کا شکار ہو کر صحراﺅں میں بکھر جائیںگے۔ کبھی کبھار صحرائی ہوا شہروں کا رخ کرے گی تو بھولے بھٹکے سے فضاﺅں میں بھٹو کی سرگوشی سنائی دے گی”نظریے کی موت ہی اصل موت کہلاتی ہے“۔
کیا پاکستان پیپلز پارٹی نظریاتی موت کی جانب بڑھ چکی ہے؟۔ملک بھر میں پارٹی انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ چھوٹے بڑے یونٹس، ضلعی و صوبائی عہدیداران میں دوریاں اتنی بڑھ چکیں کہ آصف علی زرداری کے سامنے بھی ہاتھا پائی سے باز نہیں آتے۔ بیشتر قائدین نئے سرے سے عوام کا سامنا کرنے اور سرور و مستی کی آرام گاہوں سے نکلنے پر آمادہ ہی نہیں۔ خواتین ونگ، مزدور رہنما، کلچرل عہدیداران پذیرائی نہ ملنے کے باعث اخباری بیانات سے بھی آﺅٹ ہوچکے ہیں۔ کہاں گیا پیپلز پارٹی کا یوتھ ونگ؟۔ کہاں غائب ہوگئے جیالوں کے وہ ٹولے جو پہروں سیاسی رقیبوں پر بھٹو ازم کا سحر پھونکا کرتے تھے؟۔۔۔کوئی کہیں نہیں گیا۔ سبھی یہیں موجود ہیں۔ بھٹو ازم بھی اور جیالے بھی۔۔۔البتہ پارٹی قائدین ، اک نئی خاندانی پارٹی شناخت کی خاطر، خود ہی ان جیالوں سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں جو 2013 ءمیں بسنے کے باوجود بھٹو بھٹو کی دہائی دیے پھرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی پارٹی کی ٹاپ لیول قیادت نے نئے ممبرز کو نہ تو بھٹو ازم سے متعارف کروایا اور نہ ہی حقیقی جیالوں کو مخصوص حد سے آگے بڑھنے دیا گیا۔ بھٹو ازم کو زرداری ازم میں ڈھالنے کے لئے ضروری تھا پرانے کارکنوں کو فاصلے پر ہی رکھا جاتا۔ نئے نظریے کے حامیوں کی نظروں میں بھٹو کی خاطر قید ، کوڑے کھانے والوں کی اہمیت انتخابی سیزن تک محدود تھی۔درجنوں نہیں، سینکڑوں نہیں، بلکہ ہزاروں کارکنوں نے صرف بھٹو کی خاطر اپنی زندگیاں، مستقبل کے خواب اور کاروبار تباہ و برباد کر لئے۔ کیا ان سختیوں سے گذرنے والے بے زبان حیوان تھے؟۔ کیا بھٹو کی خاطر احتجاجا آگ لگانے والوں کو اپنی زندگی سے پیار نہیں تھا؟۔ بڑی تذلیل کی پیپلز پارٹی کے نئے قائدین نے پرانے ورکروں کی۔
اب زمانہ حقیقتاً بدل گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکن میں مزید استعمال ہونے کی سکت ہی نہیں بچی۔ پارٹیوں پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب نئے کارکن نہ ملیں تو پرانے ضعیف ہو جاتے ہیں۔ آج کے نوجوان کارکن طاقت کے نئے مرکز پاکستان تحریک انصاف یا پاکستان عوامی تحریک کی جانب جا رہے ہیں۔ پنجاب میں بدترین شکست کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے عمران خان ہر صورت جیتنے والے گھوڑوں کی طرف لپکیں گے۔ یہ گھوڑے وسیع تعداد میں پیپلز پارٹی کے بوسیدہ اصطبل میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہاں پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف ، دونوں کے لئے ہی المیوں کا ایک نیا سفر شروع ہوسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ہارنے والے ایم این اے ، ایم پی اے حضرات بھانپ چکے ہیں پارٹی انتہائی سرعت سے زوال پذیر ہورہی ہے۔ اپنی سیاسی بقاءکی خاطر پی پی پی کے شہری حلقوں کے امیدواروں کے پاس تحریک انصاف اور دیہی علاقوں کے لئے پاکستان عوامی تحریک کے سوا کوئی چوائس نہیں بچی۔ مستقبل میں یہ ممبرز بڑی تعداد میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعتوں کا رخ کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان بھی گذشتہ انتخابات میں اپنے ”لنگڑے ٹائروں“ کی کارکردگی سے سکتے کی کیفیت میں ہیں۔ وہ بڑی جماعتوں کو چھوڑ کر آنے والوں کو کھلی بانہوں سے خوش آمدید کہیں گے۔
بظاہر تحریک انصاف مضبوط ہو جائے گی، لیکن تحریک مخالف نظریات کے حامل اجنبیوں کا ہجوم اس قدر بڑھ جائے گا بالآخر تحریک انصاف بھی اندرونی اختلافات کا شکار ہو سکتی ہے۔ تحریک انصاف کے قائدین نے توا بھی سے پی پی پی کی طرح کارکنوں سے اجتناب برتنا شروع کر دیا ہے۔ ہر وہ جماعت جو اقتدار میں ہو یا باہر اگر مرکزی دفتر کو بے رونق چھوڑ دے گی تو کارکن کی تذلیل مقدر کا لکھا بن جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا حشر سب کے سامنے ہے۔ محبت، عقیدت، احترام تو ایک طرف فقیر تک پی پی پی کا نام سنتے ہی دوڑ لگا جاتے ہیں۔ فقیروں سے بڑا پروپیگنڈہ سیل آج تک منظر عام پر نہیں آسکا۔ بھٹو کو افسانوی بھٹوبنانے والے یہی غریب غرباءتھے اور انہی کو بھٹو کے” وارثوں“ نے چن چن کر اپنے دفاتر سے پرے دھکیل ڈالا ہے۔آصف علی زرداری صاحب کے لئے سب سے بڑا چیلنج پارٹی کو اندرونی سطح پر مضبوط بنانا ہوگا۔ ایسا ہوسکتا ہے، اگر وہ پرانے ورکروں کو دوبارہ ان کرلیں۔ اس سے بھی بڑھ کر انہیں اپنے اردگرد ذہین اور وژنری لوگوں کا حصار قائم کرنا ہوگا، لیکن بدقسمتی سے تقریبا ہر تقریب میں ان کے پیچھے بھی مختلف سکینڈلوں میں گھرے لوگ ہی نظر آتے ہیں۔ایسا ہی ایک نوجوان عمران خان کی مقبولیت کو بھی داغدار کر رہا ہے۔ پنجاب میں ٹکٹوں کی فروخت میں دیہاڑی لگانے کے باوجود یہ نوجوان کسی نہ کسی طرح عمران خان کے دائیں یا بائیں پہنچ ہی جاتا ہے۔ بقول ممتاز کالم نگار فاروق عالم انصاری شاید اس کا مقصد آنے والے انتخابات میں اپنے کلائنٹس کو مارکیٹ ویلیو کا احساس دلوانا ہوتا ہے۔
Similar Threads:
Moona (05-07-2016)
Very Nice
Keep it up
@intelligent086 Thanks 4 informative sharing
Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
Nikita Khurshchev
intelligent086 (05-07-2016)
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks