SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 4 of 4

    Thread: دیپ جس کا محلات ہی میں جلے 05 دسمبر 2014

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      دیپ جس کا محلات ہی میں جلے 05 دسمبر 2014


      وطن عزیز میں کتنے زیادہ مسائل کا باعث ہمارے اشرافیہ کی وہ لالچی، ناعاقبت اندیش اور متکبرانہ سوچ ہے جو انسانوں کو انسانوں میں شمار ہی نہیں کرتی۔ اپنے وجود کی پیمائش اور وزن سے کہیں زیادہ بڑھ کر اپنے وجود پروری کا جو سامان کرتے ہیں۔ اس سامان کا پھیلاﺅ اتنا زیادہ ہے کہ سادہ اور غریب انسان کی ضروریات زندگی کو بالکل ہی مختصر کرنا اشرافیہ کا ذوق توسیع پسندانہ بن جاتا ہے۔ اسباب معیشت پر اتنی قوت اور جبر سے قبضہ جمایا جاتا ہے کہ ضرورت مند غریب کو حصول معاش کے ذرائع تک رسائی بھی ایسے لگتی ہے کہ شاید خودکشی آسان ہے اور ضروریات زندگی کا حصول نہایت ناممکن ہے۔کہتے ہیں کہ جس دل میں دنیا کی محبت ہوتی ہے وہاں پر شیطان اپنی سفارت کا مرکز بنا لیتا ہے۔ اوراسے خواہشات، بے پایاں کی دلدل میں ایسا پھنسا دیتا ہے کہ ذلت کی گہرائی اس کا مقدربنا دیتا ہے۔ اور پھر اس انسان کی ہر خواہش معصوم خواہش نہیں ہوتی بلکہ خواہش بے درد ہوتی ہے اور تمنائے بے عقلاں قرار پاتی ہے۔ اس کی خواہشات کی دنیا خواب در خواب وسیع ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کی توسیع پسند خواہشات کسی غریب کی بوسیدہ ہڈیوں کو بھی نادر زمانہ بنا کر اپنے ڈرائنگ روم کی زینت قرار دیکر سجانے کا اہتمام کرتی ہیں۔ اور پھر بڑے بڑے گھروں کو اپنی امارات اور سرمائے کی معاشرتی علامت بنا کر اظہار کرنا بھی اسی اشرافیہ کی انسانی تذلیل کی کوشش ہوتی ہے۔بڑے بڑے مکانات کی تعمیر کا شوق ان کی زندگی کی آخری خواہش معلوم ہوتی ہے ہماری حکومت کے وہ ادارے جن کا محض کام ہی نئی کالونیاں آباد کرنا ہے۔ وہ بدعنوانی اور غریب ماری کا ایک بہت بڑا مرکز ہیں۔ یہی ادارے اور ان کی آشیر باد سے دیگر پرائیویٹ ادارے غریب مشقت کے مارے کم آمدنی والے کسانوں کی زمین سستے داموں خرید کر سونے کی ترازو میں تولنے کا دھندہ سر انجام دیتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے زرعی سرپرستی نہ ہونے کے باعث غریب چھوٹا کسان اور متوسط زمیندار بھی روز مرہ کے بجلی کے بلوں اور زرعی دواﺅں کے علاوہ کھادوں کی گرانی کے باعث زمین سے روپوں کا تبادلہ منظور کر لیتے ہیں اور پھر اپنے آباءکی درانتوں کو کوڑیوں کے دام بیچتے ہیں پھر اشرافیہ کی خواہشات کی تکمیل کے وسیلہ ستھری ترقیاتی ادارے ان زرعی زمینوں کو توسیع پسندانہ تعمیراتی پروگراموں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ اور پھر بڑی بڑی سکیمیں تیار ہوتی ہیں۔ مکان بڑھتے چلے جاتے ہیں اور زرعی زمین کا رقبہ کم ہوتا جاتا ہے۔ تاجر اپنی سیل کرتے ہیں کہ زرعی پیداوار کی کمی کا بہانہ کر کے دیار دشمناں سے سبزیاں تک درآمد کرتے ہیں اور اپنی تجوریاں بھر کر امن کی آشا کا دامن تھام کر دشمن کی تمناﺅں کو اپنی زبان کا سہارا دیتے ہیں۔پاکستان اپنی معیشت کے لحاظ سے ایک زرعی ملک ہے اگر زرعی زمینوں ہی کو بستیوں میں بدلنے کا جبری شوق جاری رہا تو ایک دن ایسا آئے گا کہ گھر کی چھتوں پر مٹی بچھا کر فصلیں اگانے کا بڑا شوق جنم لے گا اور پھر فطرت مخالف عمل کی نحوست ہماری معیشت پر پڑے گی اور ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت محض ایک فیشن بن جائے گی۔ اور ضرورت معاش کا بندھن ہماری غیر ملکی گداگری سے بندھ جائے گا۔دوسری جانب ظلم یہ ہے کہ بڑے مکانات کے شوقین لوگوں نے تعمیراتی زمین کی قیمت اتنی زیادہ بڑھا دی ہے کہ ایک سادہ عام شہری 2 مرلہ زمین خریدنے کےلئے بھی چالیس سال تک ٹکہ ٹکہ اور پیسہ پیسہ جوڑ کر اپنی کٹیاں کے تنکے سیدھا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر مہنگائی کی بلائے ناگہانی آپڑتی ہے اور 2 مرلے کا مکان بھی بغیر تکمیل کے اپنے رہائشیوں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔نئے فیشن زدہ، حیا باختہ رہائشیوں کا بوجھ اٹھانے والی بستیاں اپنے تعمیر کنندہ کاروبارئیوں کو اتنا امیر کر دیتی ہیں کہ وہ پھر لوگوں کے ضمیر کی خریداری کا سلسلہ بھی شروع کرتے ہیں۔ مدرسے بناتے ہیں مسجدیں بناتے ہیں اور پھر غریب دیہاڑی دار مزدوروں کو بیچ سڑک میں قطار اندر قطار کھڑا کر کے غریبوں کے دستر خوان کے نام سے بھیک سنٹر بناتے ہیں سیاسی بازیگروں کو بھی اپنی مکارانہ چالوں کے تحفظ کیلئے اپنے ساتھ رکھتے ہیںرسالت پناہ کے قول مبارک کا مفہوم ہے کہ سب سے برا روپیہ وہ ہوتا ہے جو گارے مٹی کی تعمیر میں خرچ کیا جائے۔دور حاضر کے ایک دانشور مختار مسعود کا یہ احساس کہ قیام پاکستان کے بعد ہم اپنے وطن کے قیام و تعمیر کی اصل روش اور مقصود نظریہ کو فراموش کر بیٹھے۔ منزل کا نصب العین ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا اپنی زندگی کی جائز اور محتاط ضروریات کو اپنی توسیع پسند طبیعت کے دروازے پر لاکھڑا کیا اور پھر ضروریات سے بڑھی ہوئی خواہشات ہی کو اپنے لئے منتخب کر لیا پھر بڑے بڑے مکانات، جدید ترین امراءکی بستیاں وجود میں آنے لگے۔ گلبرگ، شادمان، ڈیفنس، جوہر ٹاﺅن، بحریہ ٹاﺅن اور زرعی اراضی کو بانجھ کرنے کیلئے لہلہاتے کھیتوں پر پتھر کے دیو ہیکل قلعہ نما مکانات کی تعمیر نے ہماری ثقافت کو ہمارے قومی مزاج اور ضروریات سے بالکل ہی نا آشنا کر دیا۔ مساجد کا قیام ہماری دینی و ملی ضروریات کا حصہ ہیں۔ لیکن انسانوں کی راحت رسائی کےلئے شفاخانے، شفاف پانی کی سبیلیں اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے جدید و قدیم علوم کا اہتمام اور درسگاہوں کا قیام بھی اتنا ہی اہم ہے تاکہ دل و دماغ کے بت خانے سے نجات ہو اور ظاہر و باطن میں مقاصد مسجد از خود جنم لینے لگیں۔مساجد کی ضرورت اور تقدس کا انکار گمراہی ہے لیکن مقاصد مساجد سے بے خبری اور پہلوتہی بھی تو کتنی ستم ظریفی ہے۔ کہ تعلیم و تعلم کیلئے ان بڑی بستیوں کے پاس ایچی سن، بیکن ہاﺅس اور غیر ملکی نصابات کو ترجیح دیں اور مسجد محض ایک ثقافتی علامت بن کر رہ جائے اور وہاں پر لوگ انتظام و انصرام سنبھالیں جو قوم کو فرقوںمیں بانٹتے ہیں اور دین و دنیا کے متوازن اسلامی تصور سے ہٹ کر ایسے رجال مذہب پیدا کرتے ہیں جن کو دیکھ کر دین ملا فی سبیل اللہ فساد کا تصور از خود چلا آتا ہے





      Similar Threads:

    2. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Moona (03-23-2016)

    3. #2
      Family Member Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 UmerAmer's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      4,677
      Threads
      407
      Thanks
      124
      Thanked 346 Times in 299 Posts
      Mentioned
      253 Post(s)
      Tagged
      5399 Thread(s)
      Rep Power
      158

      Re: دیپ جس کا محلات ہی میں جلے 05 دسمبر 2014

      Bohat Khoob





    4. #3
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Moona's Avatar
      Join Date
      Feb 2016
      Location
      Lahore , Pakistan
      Posts
      6,209
      Threads
      0
      Thanks
      7,147
      Thanked 4,115 Times in 4,007 Posts
      Mentioned
      652 Post(s)
      Tagged
      176 Thread(s)
      Rep Power
      15

      Re: دیپ جس کا محلات ہی میں جلے 05 دسمبر 2014

      @intelligent086 Thanks 4 informative sharing

      Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
      Nikita Khurshchev

    5. The Following User Says Thank You to Moona For This Useful Post:

      intelligent086 (03-23-2016)

    6. #4
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: دیپ جس کا محلات ہی میں جلے 05 دسمبر 2014

      Quote Originally Posted by Moona View Post
      @intelligent086 Thanks 4 informative sharing





      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •