جادو وہ مخفی پرسرار طاقت ہے جسکو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اور اللہ پاک نے اسے اپنے ناپسدیدہ لوگوں کو دیا ہے۔ جب ابلیس نے حضرت آدم کو سجدہ سے انکار کر دیا تو اللہ تعالی نے ابلیس کو جنت سے نکال دیا۔ اور اسکی تماتم عبادت و ریاضت کو اسکے منہ پر جادو کی شکل میں دے مارا۔ تو پس شیطان اسکا ماہر، بےحیائی اسکا زیور، گندگی اور غلاظت اسکی خوراک، بد عقیدگی اسکی ابتداء، شرک اسکی انتہاء۔ اسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسکا انکار کفر، یہ اسلام کے منافی اور اسکے الٹ ہے اور اسکی حقیقت مسلم ہے۔ انسان کا جیتا جاگتا گھر برباد کر دیتا ہے۔ ملک کے حالات برباد کر دیتا ہے۔
فی زمانہ عاملین جادو کو یوں بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی چیز غائب کر دی۔ کوئی شے غائب تھی تو حاضر کردی۔ کسی کو ہوا میں اڑا دیا۔ کسی کے دل کے احوال بیان کر دیے۔ یہ سب کی سب اور ان جیسی ہزاروں حرکتیں کرتب اور شعبد ہبازیاں ہیں جو عوام الناس اور سادہ لوہ لوگوں کے گمراہ اور بیوقوف بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ تمام باتیں لوگوں کو متاثر تو ضرور کرتی ہیں مگر انکا تمام باتوں کا جادو کی اصل حقیقت سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ جادوگروں کے ان ڈھکوسلوں کا مقصد جادو کی اصل حقیقت سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔ انکے عقائد کو برباد کرنا ہے۔ جادو کے بارے میں جو عقیدہ قرآن پاک میں بیان کیا گئیا ہے، اور متواتر احادیث سے جنکا ثبوت ملتا ہے، اس سے روگرادنی کروائی گئی ہے۔ اس کام میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ صد فیصد کامیاب ہوگئے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ آیئے اس بات کو ذرا تفصیل سے سمجھ لیتے ہیں۔
اللہ پاک کو دو رشتے بہت پسند ہیں۔ ایک مومن مسلمان کا ایمان لانے کے بعد جو اللہ سے تعلق قائم ہو جاتا ہے وہ۔ اور دوسرا میاں اور بیوی کا رشتہ۔ جہاں قرآن پاک میں ان دونوں رشتوں کا ذکر موجود ہے۔ وہیں ان رشتوں کے کاٹنے والی ان دیکھی تیز دھار تلوار یعنی جادو کا ذکر کیا ہے۔ قرآن پاک میں جادو کا انبیاء صلاۃ واسلام پرہونا، جنکے مومن ہونے میں کوئی شک نہیں، موجود ہے۔ ساحر یا جادوگر نبی کے مقابلے میں اور سحر یا جادو معجزے کے مقابلے میں آیا ہے۔ سامری جادوگر نے حضرت موسی اور ہارون علیہ سلام کے زمانے میں سونے کا بچھڑا بنایا اور اس پر جادو کر کے لوگوں کے ایمان ڈاکہ ڈالا اور انکو بدعقیدہ کیا۔ اسی طرح قرآن میں میاں بیوی پر جادو کا ہونے بھی ذکر ہے۔ ابتداء میں کفار و مشرکیں میاں بیوی میں جھگڑے اور انکے درمیان جدائی پیدا کروانے کیلئے جادو کیا کرتے تھے۔
دنیا میں دو ہی قوتیں کرفرما ہیں۔ ایک رحمانی اور دوسری شیطانی۔ ینعی ایک مثبت اور ایک منفی۔ اللہ پاک نے ان قوتوں کا ذکر اور انکے عوامل قرآن پاک میں بیان کئے ہیں۔ اگر آپ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھیں اور اس پر غور کریں تو آپ پر ان سورتوں میں موجود پوشیدہ راز ظاہر ہونا شروع ہوجایئں گے۔
سورۃ الفلق
ہم سورۃ فلق میں غور کریں تو قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ ٱلْفَلَقِ میں فلق سے وقت مراد ہے۔ جادو کے عمل میں وقت اور ساعتوں کی بہت اہمیت ہے۔ اس ضمن میں شمسی اور قمری منازل، برج اور سیارگان کی چالیں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ان چالوں میں سعد یعنی اچھی اور نحس یعنی منحوس ساعتوں کی ترکیب کو استعمال کر کے ممکنہ نتائج حاصل کرنے کیلئے جادو کیا جاتا ہے۔
مِن شَرِّ مَا خَلَقَ میں خلق یعنی کائنات میں موجود مادّی اشیاء کے شر کا ذکر ہے۔
وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ میں پھر رات کی تاریکی کا ذکر ہے۔ برائی کے اکثر کام رات کی تاریکی میں سر انجام دیئے جاتے ہیں۔ جادو ان میں شدید تر عمل ہے۔
وَمِن شَرِّ ٱلنَّفَّٰثَٰتِ فِى ٱلْعُقَدِ میں خواتین یعنی جادو کرنے والیوں کا ذکر ہے۔ چونکہ خواتین طبیعتا نرم ہوتی ہیں اورعموما شیطان کی چالوں مین جلدی آجاتیں ہیں۔ اور جادو کے چکر میں پڑجاتیں ہیں۔ اور تمام حدود کا پامال کرتےہوئے گندگی اور گمراہی کی دلدل مین پھنس جاتی ہیں۔ پھرآپ قبرستان میں خون سے غسل کرنے کے اور اس جیسے واقعات سنتے ہیں۔
وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ اس مقام پر اللہ پاک نے جادو اور قسم کی قبیح جرائم کی جڑبیان کی ہے۔ جو کہ بلا شک و شبہ حسد ہے۔ یہ حسد ہی ہے جو ایک انسان کی دوسرے انسان کا دشمن بناتا ہے۔ اسے اسکے کے خلاف اکساتا ہے اور برائی کے اس مقام تک لے جاتا ہے جہاں منزل جہنم اور اس سے واپسی دشوار ہے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کے حسد نیکیوں کو اسطرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو جلا ڈالتی ہے۔
سورہ الناس
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ ٱلنَّاسِ میں والناس سے مراد جادو گر بھی ہیں۔ یعنی جادوگروں کی شر سے اللہ کی پناہ میں آجاؤ ۔
مِن شَرِّ ٱلْوَسْوَاسِ ٱلْخَنَّاسِ۔ ٱلَّذِى يُوَسْوِسُ فِى صُدُورِ ٱلنَّاسِ۔ مِنَ ٱلْجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ میں ان بد فطرت شیاطین کا تذکرہ ہے جو انسان کے دلوں میں اس وقت وساوس پیدا کرتا ہے۔ اور انکے دلوں میں شک پیدا کردیتا ہے۔ یہ شک ہی فساد کی جڑ ہے۔ آپکے ایمان میں شک ڈالدے گا۔ اپکی نمازوں عبادات میں شک پیدا کر دیگا۔ ہر ایک نیک عمل کے بارے میں شکوک شبھات میں مبتلا کر دیگا۔
قرآن میں ہے الم ذَٰلِكَ ٱلْكِتَٰبُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًۭى لِّلْمُتَّقِينَ، یعنی قرآن پاک میں کوئی شک نہیں ہے اور یہ ہدایت ہے متقیوں کیلئے۔ پر آج آپکو ایسے طبقات مل جائیں گے جو قرآن کے بارے میں شک کر کے گمراہی میں مبتلاء ہو چکےہیں۔
سورہ ناس میں وسوسہ اور الم میں شک کا ذکر، آج ہم سب اپنے اپنے وجود کو کھنگال لیں، اور ٹٹول ٹٹول کر دیکھِں کہ ہم میں سے ہر ہر شخص وسوسہ اور شک میں مبتلاء ہے۔
پھر جب وہ اللہ کی یاد سے غافل ہوجاتا ھے۔ اور جیسے ہی ان وسوسوں میں مبتلاء شخص رجوع الی اللہ ہوتا ہے تو یہ ڈر کر بھاگ جاتےہے۔ یہ شیاطین جنات میں سے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں میں سے بھی۔
اب ہمیں اس ساری تفصیل کے بعد معلوم ہوگیا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے فرمادیا کہ جادو کے پیچھے چار عوامل کرفرما ہوتےہیں۔
۱۔ جادوگر
۲ ۔ شیاطین
۳۔ جنات
۴۔ انسان) وہ جو دوسرں پر جادو کرواتےہیں(
رہی بات جادو کی کاٹ اور توڑ کی، تو یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ جادو انبیاء کے اور معجزات کے مقابلے میں آیا ہے۔ ابلیس سے آپکی لڑائی اسطرح کی ہے کہ بظاہر وہ چھپا ہوا ہے پر آپکا کھلا دشمن ہے۔ اسکے جادو کی مہارت کا اندازہ اسطرح سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابلیس فرعون کے دربار میں بزرگ بن کے جا پہنچا(نوٹ:اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان بزرگ اور ہر انسان کا روپ دھار سکتا ہے سوائے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کہ۔) فرعون سے مخاطب ہو کر بولا کہ تو کس دلیل سے اپنے کو خدا مانتا ہے؟ فرعون بولا میرے پاس اتنے ہزار جادوگر ہیں (نوٹ: یہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت چلانے کیلئے جادوگروں کو ساتھ رکھنا حکمرانوں کا پرانا شیوا ہے)۔ ابلیس بولا کے بلائو اپنے جادوگر۔ جب جادوگر آئے اور انہوں نے منتر پرھا تو ابلیس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ الٹا جوابا ابلیس نے ایک منتر تو انکا سارا جادو ختم ہو گیا۔ ابلیس فرعوں سے بولا کہ تو اتنا عاجز ہو کر خدا بنتا ہے، اللہ مجھے اتنے کمالات دے کر اپنا بندہ نہیں سمجھتا۔
تو جادو برحق ہے۔ اس نے عقیدے کا بگار پیدا کیا ہے۔ شیطان جادوگروں کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ پھرانکی ضرورت پوری کرنے کیلئے اپنی خوارک طلب کرتا ہے۔ جو کہ اسکی شرط کہلاتی ہے۔ کسی سے خون مانگتا ہے۔ کسی سے سندور۔ کسی کچھ ، کسی سے کچھ اور۔ پھر اپنی خوراک پوری ہونے پر شیاطین پر لازم ہوجاتا ہے کے انکے کام آئیں۔ اس پر شیاطین کی ڈیوٹی ختم ہو جاتی ہے مگر یہاں ابلیس آجاتا ہے اور جادوگروں سے کہتا ہے کے ان شیطانوں کو پیشوا مانو، اور ان سے پوجا کرواتا ہے۔ یہ ابلیس کا اصل مقصد ہے کے اللہ کے بندوں کو اللہ سے کاٹ دو۔ اللہ ہم سب کو ابلیس، شیاطین اور جادو کی شر سے محفوظ رکھیں آمین۔
Similar Threads:
Bookmarks