Moona (03-24-2016)
سیاست کی بلو رانی اور شیخو بابا؟
شیخ رشید نے بلاول بھٹو کو ’’بلو رانی‘‘ کہا ہے۔ اس سے مذاق جھگڑا بن گیا ہے۔ عمران خان نے لاڑکانہ میں شہید بی بی کے لئے سیاست کی رانی کے الفاظ ادا کئے۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ عمران کہہ رہے ہوں۔ شیخو بابا زیادہ شیخیاں نہ مارا کرو۔ عجیب بات ہے کہ شیخ رشید کی بات پر لوگ عمران کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ ٹی وی چینل میں جو کچھ عمران سے پوچھنا ہوتا ہے وہ شیخ رشید سے پوچھتے ہیں۔ شیخ صاحب تو نشانی بننا چاہتے ہیں۔ ’’چھلا دے جا نشانی تیری مہربانی‘‘۔ شیخ رشید نے خود کہا ہے کہ مجھے شیخو بابا کا لفظ اچھا نہیں لگتا۔ شیدا ٹلی ایک زمانے میں اسے پسند تھا۔ اب یہ بھی اچھا نہیں لگتا۔ شیخیاں مارنے کے ساتھ شوخیاں مارنے کی بات بھی ہے اور اس میں بھی شیخ صاحب کو کمال حاصل ہے۔ ٹلی مسلسل بج رہی ہے۔
شیخ صاحب گورڈن کالج راولپنڈی میں میرے سٹوڈنٹ تھے۔ پرویز رشید بھی وہاں تھے۔ شیخ رشید نے پرویز رشید کو کالج الیکشن میں شکست دی تھی۔ پرویز رشید وزیر اطلاعات بن کر بھی وہ نہیں کر سکے جو شیخ رشید نے کر دکھایا تھا۔ پرویز رشید بھٹو کے دیوانوں میں تھا اب نواز شریف کے پروانوں میں سے ہے۔ جب کہ سیاسی بادشاہی نواز شریف نے بھٹو مخالف سیاست سے حاصل کی۔ یہ بات دونوں میں ہے کہ وہ مڈل کلاس سے اٹھ کر سیاسی ماڈل بن گئے۔ مگر رول ماڈل نہ بن سکے آٹھ بار مختلف سیاسی فوجی حکومتوں میں وزیر رہنے والے شیخ رشید آج بھی ایک نمایاں سیاسی آدمی کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ایک بات تو ہے کہ وہ کبھی وزیر شذیر نہیں بنے۔
انہوں نے جو باتیں نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہو کر وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف بے ہودگی سے کیں بلکہ بڑھکیں ماریں اسی طرح کی باتیں عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو کر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف کر رہے ہیں۔ ’’وزیراعظم‘‘ عمران خان کے خلاف باتیں کس کے سائے میں کریں گے؟ اس نے ایک جلسے میں کہا کہ میاں صاحب ’’دب کے رکھو‘‘ اور کچھ اشارے بھی کئے۔ اس نے قومی اسمبلی میں قبائے زرد میں ملبوس وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو پیلی ٹیکسی کہہ دیا۔ نواز شریف کے زمانے میں پیلی ٹیکسی کی سکیم شروع ہوئی تھی مگر ٹیکسی کا لفظ ہمارے معاشرے میں مثبت انداز میں استعمال نہیں ہوتا تو ایک جیالے ایم این اے نے کہا کہ شیخ رشید ’’چیخا‘‘ ہے۔ چیخا اور شیخا میں کیا فرق ہے کہ شیخ رشید گھبرا گیا۔ پھر اسے بہاولپور جیل میں کچھ وقت گزارنا پڑا۔ اس نے پیپلز پارٹی کے کچھ لوگوں کی معرفت سے مصالحت کر لی جس کا کچھ تعلق ’’صدر‘‘ زرداری کی مفاہمت سے ہے۔ اب اس نے شہید بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو بلو رانی کہہ دیا جس طرح گلو بٹ کے بعد ملتان کے بلال بٹ کو بلو بٹ کہہ دیا گیا۔ ایک بٹ صاحب شیخ رشید اور عمران خان کے پاس بھی ہے۔ ’’ڈی جے بٹ‘‘ عمران نے تو بٹ برادری کی تعریف کر دی ہے کہ گوجرانوالہ کا جلسہ بہت اہم اور خطرناک ہو گیا تھا۔ وہ صرف گلو کے خلاف ہیں۔ گلو بھی اس ملک میں ہیں۔ ’’عمران خان اپنی کون کون سی بات‘‘ کی صفائی دیں گے۔ کہیں صفایا ہی نہ ہو جائے۔
ہمارے ایک دوست ملک جاوید اعوان آف واہگہ ہیں۔ وہ سچے اور بہادر جیالے ہیں۔ وہ شہید ذوالفقار بھٹو کے دیوانے ہیں اور جیل کے ساتھی ہیں۔ انہوں نے بھٹو کے عشق میں کئی ’’مشکلات‘‘ کا مقابلہ کیا ہے۔ وہ بھٹو کی بیٹی کے لئے شیح رشید کی سیاسی گالم گلوچ برداشت نہ کر سکے تھے اور لاہور ائر پورٹ پر شیخ صاحب کے ساتھ بہت مار دھاڑ کی کوشش کی۔ آج وہ شہید بی بی کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے لئے کسی قسم کی بے عزتی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ اب بھی جاوید اعوان بہت غصے میں ہیں۔
شیخو بابا سے مجھے یاد آ یا کہ یہ نام اکبر اعظم اپنے جانشین بیٹے جہانگیر کے لئے پیار سے لیتا تھا۔ مگر اس پیارے بیٹے نے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کی اور بھرپور جنگ کی۔ شیخو ہار گیا اکبر اعظم نے جیت کے بھی شیخو کو الگ نہ کیا۔ جبکہ جہانگیر کے پوتے اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے تین بھائیوں کو قتل کیا۔ وہ یہ نہ کرتا تو کوئی اور شہزادہ بھائی اسے قتل کر دیتا۔ اورنگ زیب نے اپنے باپ کو بھی قید میں ڈال لیا۔ یہ سیاست و حکومت کی اصل پہچان ہے۔
جہانگیر بہت رنگین مزاج اور شوقین مزاج تھا۔ اپنی محبوبہ کے دیوار میں چنوائے جانے کے بعد عاشق مزاج ہی رہا۔ ایسی کئی کہانیاں سیاسی شیخو شیخ رشید کے ساتھ بھی وابستہ ہیں۔ شیخ صاحب میں بھی بادشاہوں والی باتیں ہیں مگر وہ جمہوری بادشاہت کے خلاف ہے وہ بات کرتا ہے تو اس کے لئے بھی ویسی ہی باتیں ہوتی ہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے وہ سیاسی یتیم ہے۔ میں اس سے اختلاف کرتا ہوں۔ اس نے اپنی سیاسی زندگی خود بنائی ہے صرف ماں کی محبت میں اس نے آگے بڑھنے کے لئے جدوجہد کی ہے۔ وہ جب بلاول کی عمر کا تھا تو ایک معروف سٹوڈنٹ لیڈر تھا۔ تو بھی اس نے بھٹو مخالفت پر اپنی سیاست استوار کی تھی مگر وہ اس قدر تیز ہے کہ پیپلز پارٹی میں بھی اس کی بڑی پوزیشن تھی۔ پیپلز پارٹی کا پرویز رشید تو دیکھتا رہ گیا۔ دونوں رشید نواز شریف کے ملازم رہے ہیں۔ پرویز رشید نے پیپلز پارٹی سے مایوس ہو کرمسلم لیگ جائن کی ہے۔ شیخ رشید نے پنڈی کے سیاستدان پیپلز پارٹی کے خورشید حسن میر کی مخالفت کی اور مولانا کوثر نیازی سے مسلسل رابطہ رکھا بلکہ کچھ دن اور راتیں بھی وہاں گزاریں۔ شیخ صاحب نے اپنا راستہ خود بنایا مگر ابھی تک اسے منزل نہیں ملی۔ وہ اہم سیاسی مسافر ہے مگر ہمسفر کسی کا نہیں بن سکتا۔ شرجیل میمن کہتا ہے کہ شیخ رشید بکائو مال ہے۔ پاکستان کے سیاسی کاروبار میں بکائو مال کون نہیں ہے؟ شرجیل میمن سندھ حکومت کے حوالے سے جو بیان بازی کرتا ہے۔ وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ تھر کے علاقے میں بچوں کی موت کو اس نے تماشا بنا لیا ہے۔ ہمارے لئے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ قائم علی شاہ اور شرجیل میمن میں کیا فرق ہے۔ شرجیل میمن سندھ حکومت میں وہی کچھ ہے جو مرکز میں پرویز رشید ہے۔ جو کچھ قومی اسمبلی میں خورشید شاہ ہے وہی قائم علی شاہ سندھ حکومت میں ہے۔ شیریں مزاری کہتی ہے کہ جو کچھ شیخ رشید کہتے ہیں ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں مگر یہ باتیں عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو کے کی جاتی ہیں۔ 30 نومبر کے لئے اشتعال انگیزی میں جو عمران نہیں کہہ سکتا وہ شیخ رشید سے کہلوا دیتا ہے۔
Similar Threads:
Moona (03-24-2016)
Bohat Khoob
Umda Sharing
Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
Nikita Khurshchev
intelligent086 (03-24-2016)
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks