Moona (03-24-2016)
تحریک انصاف کی طرف سے 30 نومبر کو ایک بڑے شو کی تیاری ہو رہی ہے۔ جس کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف 30 نو مبر سے خوفزدہ ہیں۔ 30 نومبر کو اسلام آباد میں کیا ہوگا۔ اس کے بارے میں عمومی تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ خیال بھی ہے کہ کوئی تصادم ہوسکتا ہے۔ عمران خان جس طرح کی دھمکی آمیز زبان استعمال کر رہے ہیں۔ اس سے خطرات بڑھ رہے ہیں ۔ عمران خان نے گو جرانوالہ کے جلسہ میں اپنے خطاب میں تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ میرا صبر ختم ہوگیا ہے اب مقابلہ ہوگا۔ تاثر یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کو تصادم کی ضرورت بھی ہے تاکہ ان کی تحریک میں نئی جان پڑے۔ عمران خان کے حواری شیخ رشید تو لوگوں کو اکسا رہے ہیں اور مرنے مارنے آگ لگانے کی باتیں کر رہے ہیں اور یہ باتیں عمران خان کے اسٹیج سے ان کی موجودگی میں ہو رہی ہیں۔تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومت 14اگست کی طرح 30نومبر کو بھی تمام رکاوٹوں کے باوجود عوامی سمندر کو نہیں روک پائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ملین کے ایک چوتھائی تک ہی محدود رہے ۔ عمران خان کا عزم صمیم بڑھوکہ منزل قریب ہے کامیابی سے ہمکنار ہوتا نظر آرہا ہے۔ لیکن اس کیلئے انہیں مستقبل قریب یا بعید کا انتظار کرنا ہوگا جس کا انحصار ان کی سیاسی فہم و فراست ماضی کی غلطیوں سے اجتناب پر مبنی ہے۔رہی بات عمران خان کے 30 نومبر کے جلسے کی تو اگرچہ وزیراعظم محمد نواز شریف کے زیر صدارت اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس میں 30 نومبرکو تحریک انصاف کو اسلام آباد میں پر امن جلسہ کرنے کی اجازت دینے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا وہاں ساتھ ہی ریڈ زون میں احتجاج پر پابندی لگانے بارے آرڈی ننس کے اجراءکا معاملہ بھی زیر غور ہے بعض وفاقی وزراءکے بیانات سے اس امر کا عندیہ بھی ملتا ہے کہ شاید اب کے بار حکومت تحریک انصاف کے جلسے کے شرکاءسے سختی سے نمٹے تاہم اس کا امکان کم ہی ہے کہ حکومت عجلت میں کوئی ایسا فیصلہ کرے جس کے نتیجے میں خود حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے 14 اگست سے اب تک تحمل و برداشت کی جو پالیسی اختیار کی گئی وہی جاری رکھی جائے گی۔ یہ درست ہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے کے اختتام کے بعد تحریک انصاف کا کیمپ بھی گویا اجڑ گیا ہے البتہ 30 نومبر کو ایک مرتبہ پھر 14 اگست کے دن کی یاد تازہ کرنے کا ضرور اہتمام ہوگا اور یہ تحریک انصاف کیلئے مشکل نظر آتا ہے کہ ان کی ہر بار کی کال کا جواب اسی گرم جوشی سے دیا جائے حکومت نے اعصاب تھکا دینے کی جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ موثر بھی رہی ہے جسے جاری رکھ کر ہی تحریک انصاف کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرسکتی ہے اس مرتبہ تحریک انصاف کی جانب سے اگر کسی سیاسی فیصلے سے ہلچل پیدا کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا تو پھر تحریک انصاف معاملات کو بگاڑنے کیلئے ممکنہ طور پرتصادم پر مبنی حالات پیدا کرسکتی ہے جس کے نتیجے میں ایوان صدر اور وزیراعظم ہاس کی طرف شرکاءکو بڑھنے کا عندیہ دیا جائے گا۔ تاہم یہ نہایت سوچ سمجھ کر کرنے کا فیصلہ ہوگا اس سے جہاں وفاقی حکومت کو دبا کا سامنا ہوگا وہاں خود تحریک انصاف کی قیادت کیلئے یہ کوئی آسان عمل نہ ہوگا جس کے نتیجے میں گرفتاریوں اور تشدد کا سامنا ہوا اس وقت تک کی صورت حال میں کسی طور یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ تحریک انصاف اس ماہ کے آخر میں ایسی کیا حکمت عملی اختیار کرنے جا رہی ہے جواب تک کی اختیار کردہ حکمت عملی سے مختلف اور موثر ہو بہرحال دو ہی راستے ہیں جن میں سے ایک راستہ عوام کا سمندر لا کر پورے اسلام آباد کو گھیر لیا جائے اور حکومت کیلئے انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے خلاف کوئی بھی سخت قدم اٹھانا ممکن نہ رہے۔ ہمارے تئیں یہی وہ ایک راستہ ہے جس کے ذریعے حکومت کو زیر دبا لایا جائے۔ اس کے علاوہ پورے ملک سے حکومت اور اسمبلیوں کی رکنیت سے استعفے جزوی عمل کی تکمیل کا طریقہ بھی بڑی حد تک دبا کا باعث بن سکتا ہے تاہم امکان ہے کہ وفاقی حکومت اس طرح کے حربے کو سیاسی طریقوں سے باآسانی سہہ لے گی البتہ اگر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سولو فلائٹ لینے کی عادت سے رجوع کرکے حزب اختلاف کی جماعتوں کو ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ حکومت کی مخالفت میں تحریک انصاف کی تنہائی دور ہونے کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں اس ضمن میں ہم دھرنا جماعت عوامی تحریک کے داغ مفارقت دے جانے کے بعد تحریک انصاف مزید تنہائی کا شکار ہے جس کے بعد یقیناً دھرنا غیر موثر اور کارکنوں کا جوش کم پڑ گیا ہے جہاں تک ریڈزون میں اہم عمارتوں اور ڈپلومیٹک انکلیوں کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کا سوال ہے یہ بہرحال وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے اس ضمن میں کسی نرمی کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیئے۔ ریڈزون کی حفاظت کیلئے اگر حکومت کو طاقت کے استعمال پر مجبور ہونا پڑے تو اس کا جواز ہے۔ خود یہ تحریک انصاف کے حق میں بھی بہتر نہ ہوگاکہ وہ خود کو ایک تشدد کی حمایت اور تشدد سے کام لینے والی جماعت کے طور پر متعارف کرائے جملہ حالات میں ہوا کار خ تحریک انصاف کے حق میں بہتر دکھائی نہیں دیتا۔ تحریک انصاف کی قیادت کا امتحان ہوگا کہ 30 نومبر کو سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق کوئی حکمت عملی اختیار کرے۔ موزوں حل تو مذاکرات اور مفاہمت ہی میں دکھائی دیتا ہے جس پر شاید اب ہر دو فریقوں میں سے کسی فریق کا بھی اعتبار باقی نہ رہا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان بہت کڑے وقت میں حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں اگر وہ اسی طرح کرتے رہے اور حکومت مسائل حل کیے بغیر چار سال بعد رخصت ہوگئی تو اگلے الیکشن تک پاکستان مسائل کے کوہ گراں تلے بری طرح سے دب چکا ہوگا اور اسے بھاری چٹان کے نیچے سے نکالنا شائد کسی کے بس میں نہ رہے۔عوام کو عمران خان کی صورت میں ملک کے پسے ہوئے طبقات امید کی کرن نظر آرہی ہے اور وہ موجودہ نظام سے سخت تنگ آئے ہوئے ہیں لہٰذا عمران خان ایسی غلطیوں سے اجنتاب کریں جن سے ان کی ساری سیاسی محنت اور ریاضت خاک میں مل جائے۔ جس لیڈر کے گرد بہت بڑی تعداد میں لوگ جمع ہونا شروع ہو جائیں اور اس سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کرلیں اس کے کندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے سو ایسے لیڈر کو الفاظ کے چنا میں بڑی احتیاط برتنا پڑتی ہے اور اپنے امیج کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عمران خان خود پر سے یہ ٹھپہ ہٹائیں کہ ان کے پیچھے جرنیل یا سیکرٹ ایجنسیاں ہیں۔
Similar Threads:
Moona (03-24-2016)
Bohat Khoob
Umda Sharing
Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
Nikita Khurshchev
intelligent086 (03-24-2016)
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks