محمد ریاض
فقیہ وہ ہوتا ہے، جو اللہ کے احکام اور دین کے مسائل کو قرآن کی آیتوں اور روایات سے سمجھتے ہوئے ان سے استدلال کرے یعنی دلیل لائے اور جو بھی مسئلہ پیش آئے اس میں دین اور مذہب کے نظریہ کو پہچان سکے اور اسے بیان کر سکے۔ فقہ کے لیے قرآن پاک اور سنت نبویؐ کے علاوہ اجماع اور قیاس کو بنیاد مانا جاتا ہے۔ فقیہ کو دین شناسی کے اعلیٰ مقام پر ہونا چاہیے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے وسیع مطالعہ اور تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ فقیہ طویل عرصے تک دینی علمی مراکز میں علوم کو حاصل کرتے ہیں۔ جو اس درجہ اور مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ اسلامی مسائل کو عقلی و نقلی استدلال کے ذریعہ سمجھ جائے، اسے مجتہد اور ’’فقیہ‘‘ کہتے ہیں۔ فقہ کی ضرورت:فِقہ علوم میں افضل ہے۔ حدیث شریف میں ہے حضرت محمد ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس کے لیے بہتری چاہتا ہے اس کو دین میں فقیہ بناتا ہے، میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ دینے والا (بخاری و مسلم) حدیث میں ہے ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ سخت ہے۔ (ترمذی) فقہ احکام دین کے علم کو کہتے ہیں۔ عام طور پر ہر شخص کسی بھی معاملے میں باعلم یا ماہر فرد کی طرف رجوع کرتا ہے۔ مثلاً بیماری میں ڈاکٹر اور مکان کی تعمیر میں انجینئر اور مستری کے علم سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ مشینری کے خراب ہو جانے کی صورت میں مکینک سے رجوع کیا جاتا ہے۔ واضح ہے کہ اگر انسان خود دین میں ماہر نہ ہو اور اس کا علم نہ رکھتا ہو، تو اپنا دینی فریضہ جاننے اوراس پر عمل کرنے کے لیے فقہا کی طرف رجوع کرے اور ان سے معلوم کرے۔ شریعت کے مسائل میں شرعی دلیلوں کی بنیاد پر مجتہد کی نظر کو فتویٰ کہتے ہیں اور لوگوں کا فقہا کی طرف رجوع کرنا اور ان کے فتوے پر عمل کرنا ’’ تقلید ‘‘ کہلاتا ہے۔ ٭…٭…٭