جون ایلیا
اس دور کا سب سے نمایاں رجحان یہ ہے کہ جو تم ہو وہ نظر نہ آئو۔ یہ معاشرے کا دبائو ہے جو ہمیں اس بے معنی اداکاری پر مجبور کرتا ہے۔ ہم باہر سے بہت ثابت و سالم و ہشاش بشاش نظرآتے ہیں لیکن اندر سے ریزہ ریزہ اور اذیت زدہ ہیں۔ معلوم نہیں کہ ہم نے معاشرے کے اس ظالمانہ دبائو کو کیوں قبول کرر کھا ہے۔ آپ ہر گزخوش حال نہیں ہیں مگر آپ کی یہ مجال نہیں کہ خوش حال نظر نہ آئیں۔ تین مہینے سے آپ نے گھر کا کرایہ ادا نہیں کیا، قرض پر آپ کا مدار ہے لیکن آپ کے خیالات اور نظریات اور خوش حال آدمی کے خیال اور نظریات میں کوئی فرق نہیں۔ آپ کا سیاسی نقطۂ نظر بالکل وہی ہے جو دولت مند لوگوں کا نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ آپ اتنے محروم آدمی ہیں کہ احساسِ محرومی سے بھی محروم ہیں۔ حقیقتِ حال سے اس درجہ انکار! ذات اور ذہن پر معاشرے کا اتنا دبائو۔آپ اور آپ کی بیوی، جنہیں آپ خود اپنی زبان سے بیگم کہتے ہیں جب کہ آپ کا اپنی بیوی کو بیگم کہنا آدابِ گفتگو کے قطعاً خلاف ہے اور ایک غیر مہذبانہ حرکت ہے۔ یہ دوسروں کا فرض ہے کہ وہ آپ کی بیوی کو بیگم کہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے بے حد خوش نظر آرہے ہیںجب کہ دونوں ایک دوسرے سے بری طرح تپے ہوئے ہیں۔ آپ دونوں کا بس نہیں چل رہا کہ ایک دوسرے کا منہ نوچ لیں مگر نہ جانے آپ کو دوسروں کا اتنا خیال کیوں ہے کہ مثالی شوہر اور بیوی نظر آنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہر حال میں مثالی شوہر اور مثالی بیوی نظر آنا آخر کس نظامِ اخلاق اور کس نظامِ تہذیب کی رو سے لازمی اور ضروری ہے جب کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اگر آپ بالکل بجا طور پر اپنی بیگم کی چٹیا کھینچ لیں اور وہ آپ کا گریبان، تو کیا قیامت آجائے گی۔ ’’مگر لوگ کیا کہیں گے!‘‘ لوگ کہا کہیں گے؟ کچھ بھی کہیں، انہیں کہنے دیجئے۔ حد سے حد یہی تو کہیں گے کہ دونوں نے شادی کی تھی جو ناکام ہوگئی۔ چلیے قصہ پاک ہوا مگر آپ ہیں کہ معاشرے سے بے تکان جھوٹ بولے چلے جارہے ہیں۔ جناب آپ کل سے جس بددلی اور بیزاری میں مبتلا ہیں۔ کیا اس کے ہوتے ہوئے آج آپ کو داڑھی بنانا زیب دیتا تھا اورآپ نے داڑھی ہی نہیں بنائی، بال بھی سنوارے ہیں اور خوشبو بھی لگائی ہے۔ میری خواہش یہ ہے کہ یہ سب کچھ آپ نے اپنی حاطر اور اپنی بددلی اور بیزاری کو دور کرنے کے لیے کیا ہو مگر میں جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ آپ نے یہ سب کچھ لوگوں کے لحاظ میں کیا ہے تاکہ وہ آپ کو ایک شائستہ نستعلیق آدمی سمجھیں۔ میں تو یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگرا ٓپ بددل اور بیزار ہیں اور بددل اور بیزار نظر بھی آرہے ہیں تو اس میں عیب کی کیا بات ہے؟ شاید آپ یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرہ آپ کا بددل اور بیزار نظرآنا پسند نہیں کرے گا۔ یقیناً ایسا ہی ہے اور جب ایسا ہی ہے تو اس بے حس اور ناہنجار معاشرے پر لعنت کیوں نہیں بھیجتے جس نے آپ کو ایک اداکار بنا کر رکھ دیا ہے۔ آپ مجھ پر شبہ نہ کریں۔ میں آپ کو بہکانے کی کوشش نہیں کررہا۔ میں خوو پیچ و تاب میں مبتلا ہوں۔ میں خود بھی اسی صورتِ حال سے دوچار ہوں جس سے آپ دوچار ہیں۔ ہوسکتا ہے میری کیفیت آپ سے زیادہ اذیت ناک ہو اور مجھ میں آپ سے زیادہ دوغلا پن پایا جاتا ہو۔ یہ دوغلا پن ہی تو ہے کہ ہماری کیفیت ہو کچھ اور ہم ظاہر کچھ اور کریں۔ یہ ساری حرکتیں محض اس لیے کی جاتی ہیں کہ آدمی شائستہ اور بردبار نظر آئے۔ گویا شائستگی اور بردباری کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ہر لمحہ اپنے آپ سے جھوٹ بولے اور ایسا نظر آئے جیسا ہو نہیں۔ اگر شائستگی یہی ہے تو کیا اس کے ایک انتہائی بے ہودہ شے ہونے میں کوئی شبہ کیا جاسکتا ہے۔ میں شاید یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اصل اور بے ساختہ آدمی کی اس معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں۔ وہ اپنی اصل حالتوں اور کیفیتوں کے اظہار کے ساتھ اس معاشرے میں قبول نہیں کیا جاسکتا۔ میرے خیال میں پہلے صورتِ حال اتنی شدید نہیں تھی اور شائستگی کے فروغ کے ساتھ ساتھ بے ساختگی کے ساتھ زندگی گزارنے کاامکان بہت کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ معاشرے کی خاطر ہم ویسے نظر آئیں جیسے ہوں نہیں۔ وہی نظر آنا، نظرآنا، نظرآنا۔ لعنت ہے اس نظر آنے پر۔ (انشائیوں کے مجموعے ’’فرنود‘‘ سے انتخاب) ٭…٭…٭
Similar Threads:
nice sharing
ღ♥ღ* ρяιηcєѕ *ღ♥ღ
Thanks for Sharing
Thanks for nice sharing.....................
nice sharing
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks