Hmmm bhtvzbrdst info apne share ki..
Wase demag ko b dhoka insan de e jta hy
Khairaat ki bt hy
Admin
حنا انور
سائنس دانوں کیلئے انسانی دماغ شروع ہی سے دلچسپی کا باعث رہا ہے ، اسی لئے انہوں نے اس کے طریقہ کا ر کو جاننے اور سمجھنے کیلئے تحقیقات کی ہیں۔دماغ انسانی جسم کونہ صرف قابو اور توازن میں رکھتا ہے۔بلکہ اس کے بغیر جسم ایک لمحے کیلئے بھی اپنا کو ئی کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔مختلف تحقیقات سے وہ یہ جان گئے ہیں کہ دماغ کو کس طرح سے دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ آلات اور تکنیکوں سے نہ صرف دماغ کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے بلکہ ان سے فالج کے شکارا ور دماغی طور پر معذور افراد کیلئے آسانیا ں بھی پیدا کی جا سکتی ہیں۔ ہمیں اس بات کا احسا س بھی نہیں ہو تا جبکہ ہمارے خیالا ت اور رویوں پر درجہ حرارت بھی اثر انداز ہو تا ہے ،یعنی ہمارے بہت سارے فیصلوں کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم گرمی محسو س کر رہے ہیں یا سردی۔اس حوالے سے ایک بڑی ہی دلچسپ ریسرچ کی گئی ۔عدالت کے ایک ایسے کمرے میں جہاں کا درجہ حرارت بہت زیادہ تھا ججوں سے پو چھا گیا ان کے خیا ل میں مجرم کا رویہ کیسا ہے تو 66%ججوں نے کہا کہ اس میں مجرمانہ خصوصیات کے کافی امکان ہیں ۔جبکہ اسی مجرم کو ایسے کمرے میں لے جایا گیا جہاں کا درجہ حرارت کم تھا تو انہی ججوں نے اسی مجرم کے بارے میں یہ کہا کہ فی الفور کسی مجرم کے بارے میں کیسے کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے؟مکمل تفتیش کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کیاجا سکتا ہے۔لہٰذا ثابت ہو اکہ گرمی اور سردی نے اس کیس کو کسی طور متاثر ضرور کیا ہو گا۔ اعتماد اور مجرمانہ رویے پر بھی ہمارے ماحول کے ٹھنڈے اور گرم ہونے کا اثر پڑتا ہے۔ایک اور مشاہداتی تحقیق کی گئی جس میں قیدیوں کو دو مختلف جیلوں میں رکھا گیا ایک جیل کے قیدیوں کو شدید گرمی میں رکھا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے ساتھ قیدیوں کے خلاف گواہی دینے پر انہیں رہا کر دیا جائے گا، گرم درجہ حرارت والے قیدی فوراََ گواہی دینے کیلئے راضی ہو گئے جبکہ جنہیں سردی میں رکھا گیا تھا انہیںگرمی کی نسبت طویل دورانیے کیلئے سردی میں رکھا گیا تب بھی وہ اپنے ساتھیوں کے خلاف کسی قسم کی گواہی دینے کیلئے راضی نہیں ہوئے۔ ماہرین کے مطابق ہم خاموشی سے کچھ پڑھ رہے ہوں،کسی کی تقریر سن رہے ہوں یا پھر اپنے ہی خیالوں میں گم ہوں ہمارے دماغ کے کچھ خاص حصے مسلسل حرکت میں رہتے ہیں،کیلفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر بریان پاسلے کا کہنا ہے ’’ جب بھی کو ئی شخص بغیر لبوں کو حرکت دیئے اخبار یا کوئی کتاب پڑھ رہا ہو تا ہے تو وہ اپنے دماغ میں ایک آواز سُن رہا ہو تا ہے۔ہم کوشش کر رہے ہیں کہ دماغ میں گونجنے والی اس آواز کو مزید واضح کر دیا جائے تاکہ ایک ایسا آلہ بنا یا جا سکے جس سے مفلوج یا معذور لوگوں کی مدد کی جا سکے۔‘‘ پاسلے اور اس کی ٹیم نے مرگی کے ایک مریض کے دماغ میں برقی رگیں نصب کر دیں،تاکہ یہ دیکھا جا سکے جب کوئی شخص کسی دوسرے کی باتیں سُن رہا ہو تا ہے تو اس کے اپنے دماغ میں کس طرح کی تبدیلی پیدا ہو تی ہے۔جب انہوں نے دماغ کی فریکوئنسی حاصل کر لی تو انہوں نے دماغ کا ایک مترجم آلہ بنانے کی کوشش کی ۔یہ ایک ایسا آلہ تھا جو دوسروں کی باتیں سن کر دماغ میں وہی تبدیلی پیداکرنے کے قابل تھا جو ایک عام انسان کے دماغ میں پیدا ہو تی ہے لہٰذا یہ طے ہواکہ اسے فالج کا شکار لوگوں کی بہتری کیلئے استعمال کیاجا ئے یعنی جو بات وہ سوچیں گے اسے اس آلے کی مدد سے سمجھا جا سکے گا۔جب یہ آلہ بنا لیا گیا تو اس کی کا رکردگی جاننے کیلئے اسے مختلف لوگو ں کے دماغ میں نصب کیا گیا جس کے نتیجے کے طور پر ماہرین بہت سارے ان الفاظ کو سمجھنے میں کامیاب ہو ئے جنہیں لوگوں نے صرف سوچا ہی تھا۔ہماری آنکھیں ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہیں کہ ہم کیا سُن رہے ہیں۔لیکن بعض اوقات دیکھنے اور سننے کی حِس آپس میں میل نہیں کھاتی اوردماغ کو دھوکہ دے جاتی ہے مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ’’با‘‘کہہ رہا ہو لیکن دیکھنے میں یوں محسوس ہو جیسے وہ ’’گا‘‘ کہہ رہا ہوتو آپ کا دماغ آپ کواس آواز کے بارے میں سوچنے کی ترغیب دے گا جو آپ دیکھ رہے ہوں گے۔جیسا کہ آپ کو لگے کا کہنے واالا’’گا ‘‘ کہہ رہا ہے۔آپ کا دماغ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے آپ کی مدد کرے گا۔اگرآپ ’’با ‘‘ کو سننے کی کوشش کریں اور آنکھوں کو بند کر لیںتو واضح طور پر آپ اسے ’’با‘‘ ہی محسوس کریں گے کیو نکہ آنکھیں بند کر لینے سے دیکھنے کی حس آپ پر اثر انداز نہیں ہو سکے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی شخص کی سوچ کو بدلنے اور اس کی برین واشنگ کیلئے اسے مہینوں تنہا رکھنے کی تکنیک بہت کارگر ثابت ہوتی ہے۔کسی ایسی جگہ جہاں گھپ اندھیرا ہو،وہاں اگر کسی شخص کو مسلسل کئی دنوں یا مہینوں تک قید تنہائی میں رکھا جا ئے تو اس کا دماغ وقت کی قید سے آزاد ہو جا تا ہے اور دن اور رات کے مابین بھی تمیز کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ 1961 ء میں ایک فرانسیسی جیولوجسٹ نے تنہا کئی مہینے ایسی جگہ پر گزارے جہاں سورج کی روشنی کا بھی گزر نہیں تھا تا کہ جا ن سکے کہ اس کے دماغ پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کئی مہینوںبعد جب اسے باہر نکالا گیا تو اس کا دماغ وقت کی رفتار سمجھنے کے قابل نہیں رہا تھا جب اسے کہا گیا کہ وہ اپنے حساب سے ایک مخصوص دورانیے کو گن کر وقت بتائے تو اس کے مطابق 120سیکنڈگزرے تھے جب کہ حقیقی طور پر پانچ منٹ کا وقت گزر چکا تھا۔جب اس سے پو چھا گیا کہ وہ کتنے دن غار میں رہا ہے تو اس نے کہا شاید 219دن جبکہ اس نے وہاں366دن گزارے تھے۔
@Admin
Similar Threads:
Hmmm bhtvzbrdst info apne share ki..
Wase demag ko b dhoka insan de e jta hy
Khairaat ki bt hy
Thanks for nice sharing
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks