انبیائے کرام

حضرت ابراہیم علیہ السلام

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ پیغمبرتھے۔سورئہ نساءمیں آپ کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہا گیا ہے۔سورۃ انعام کی آیت 74 میں آپ کے والد کا نام آزر بیان ہوا ہے۔بعض محققین نے اس سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ درحقیقت ان کے چچا تھے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عربی میں چچا کو بھی باپ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ روایات کے مطابق ابراہیم علیہ السلام عراق کے قدیم شہر اُر میں پیدا ہوئے۔ اس شہر کے لوگ بت پرست تھے۔ خود آپ کے والد نہ صرف بت پرست بلکہ بت فروش بھی تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جوان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور آپ نے تبلیغ شروع کردی۔ ایک دن جبکہ شہر کے لوگ کہیں باہر گئے ہوئے تھے تو آپ نے عبادت خانہ میں جا کر سارے بت توڑ دیے۔ اس پر بادشاہ نمرود نے آپ کو بھڑکتے ہوئے الائو میں پھینکے کا حکم دیا۔ لیکن خدا کے حکم سے آگ ٹھنڈی ہوگئی اور آپ بالکل محفو ظ رہے۔ کچھ عرصے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم کے مطا بق فلسطین ہجرت کر گئے اور دین کی تبلیغ کے لیے دو مقام منتخب کیے۔ ایک بیت المقدس اور دوسرا مکہ۔ آپ کی دو بیویاں تھیں۔ہاجرہ اور سارہ۔ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے اور سارہ سے حضرت اسحاق علیہ السلام۔ آپ نے حضرت اسماعیل کی مدد سے کعبے کو ازسرنو تعمیر کیا۔ آپ غیبی اشاروں کی بنا پر اپنے بیٹے( اسماعیل علیہ السلام) کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کو تیار ہوگئے۔ مگر خدا نے اسماعیل علیہ السلام کی بجائے دنبہ ذبح کرادیا۔ عیدالاضحٰی اسی واقعے کی یادگارہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور اسی نسبت سے مسلمان ملت ابراہیمی کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے175 برس کی عمر میں وفات پائی۔
حضرت یوسف علیہ السلام

حضرت یوسف علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے۔ آپ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کا تعلق نبیوں کے خاندان سے تھا۔چنانچہ گیارہ سال کی عمرہی سے نبی ہونے کے آثار واضح ہونے لگے تھے۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند آپ کو سجدہ کر رہے ہیں۔ آپ کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام نے آپ کو اپنا خواب کسی اور کو سنانے سے منع کیا۔ اس بات سے حضرت یعقوب کو ان کے صاحب شان ہونے کا اندازہ ہوا۔ وہ ان کی حفاظت کرنے لگے۔ حضرت یوسف کے بھائیوں نے جب اپنے باپ کا ان کی طرف میلان دیکھا تو ان میں حسد پیدا ہوا اورانہوں نے اپنے بھائی یوسف کے قتل کا ارادہ کر لیا۔ ایک دن وہ انہیں جنگل میں لے گئے اور ایک کنویں میں گرا دیا اور اپنے والد حضرت یعقوب کو واپس جا کر یہ خبر دی کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔ حضرت یوسف کو وہاں سے گزرنے والے ایک قافلے نے نکال لیا اور مصر لے جا کر غلام کے طور پر فروخت کر دیا ۔ عزیز مصرنے آپ کو خرید لیااور اپنے گھر لے گیا۔حضرت یوسف وہاں کئی سال تک رہے۔وہاں ان کے کردار پر الزام لگایا گیا تو اس کو ثابت نہ کیا جا سکا۔ آپ کو بغیر الزام ثابت کیے جیل میں ڈال دیا گیا، وہاں سے کئی سال کے بعدآپ اس وقت نکلے جب آپ نے بادشاہ مصر کے خواب کی تعبیر بیان کی اور اپنی خدمات پیش کیں۔ پھرمصر اور اس کے اردگر د کے علاقوں میں ایسا زبر دست قحط آیا جو سات سال پر محیط ہو گیا۔ حضرت یوسف جو اس وقت عزیز مصر کے عہدے پر فائز تھے،کے پاس ان کے بھائی غلے کے خریدار وں کی حیثیت سے آئے۔ حضرت یوسف نے ان کو پہچان لیا لیکن وہ نہ پہچان سکے۔ پھر دوسری بار اور پھر تیسری بار آئے اور آخر ی بار حضرت یوسف کے کہنے پر وہ اپنے والدین کو بھی مصر لے آئے۔ اس وقت سے حضرت یعقوب کا خاندان یعنی بنی اسرائیل مصر میں قیام پذیر ہے۔ایک دوصدیوں بعد مصر میں قبطیوں کی حکومت قائم ہوئی ۔ انہوں نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا اور ان پر حکومت کرنے لگے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو وہاں مبعوث کیا اور ان کو نجات دلائی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام

ضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید میں تمام پیغمبروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ مقامات پر بیان ہوا ہے۔تیس سے زیادہ سورتوں میں حضرت موسیٰ اور فرعون اور بنی اسرائیل کا کم وبیش سومرتبہ ذکر ہوا ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ سے براہ راست کلام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے، اسی بنا پر آپ کو کلیم اللہ بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو متعدد معجزے عطا کیے تھے۔ فرعون کو نجومیوں نے بتایا کہ تمھاری رعایا میں سے ایک بچہ پیدا ہو گا جو تمھاری سلطنت کو ختم کر دے گا چنانچہ فرعون نے یہ حکم جاری کر دیا کہ کوئی بھی بچہ پیدا ہو تو اسے قتل کر دیا جائے۔ دوسری روایت جو کہ قرآن میں ہے، اس کے مطابق فرعون نے یہ قانون بنا رکھا تھا کہ بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو قتل کر دیا جائے تاکہ ان کی آبادی کم ہو سکے ۔ جب حضرت موسیٰ کی پیدایش ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی والدہ کو وحی کے ذریعے سے ہدایت کی کہ وہ آپ کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا میں بہا دیں۔ آپ نے حضرت موسٰی کو ایک صندوق میں لٹا کر دریا میں بہا دیا ، دریا کی موجیں اسے ساحل سے دور لے گئیں۔ فرعون کی نیک دل بیوی نے صندوق کو نکال لیا اور اپنے ہاں پالنا شروع کر دیا ۔ حضرت موسی ٰعلیہ السلام بالغ ہونے تک فرعون کے محل میں نہایت احترام کے ساتھ رہے۔ جوانی کے زمانے میں آپ نے اپنی قوم بنی اسرائیل کے ایک آدمی کی مدد میں فرعونی قوم کے ایک شخص کو مکا مارا جس سے وہ اتفاقی طور پر مر گیا۔ حضرت موسیٰ کو اندیشہ ہوا کہ اس کی سزا میں انہیں قتل نہ کر دیا جائے۔ اس لےے وہ شہر چھوڑ کر چلے گئے اور دور کے علاقے مدین میں قیام پذیر ہو ئے ۔ وہ کم وبیش دس سال رہے ۔ وہیں آپ کی شادی ہوئی اور بیٹے اور بیوی کے ساتھ واپس مصر تشریف لائے ، راستے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت سے سرفراز کیا اور انہیں فرعون کے دربار میں جا کر توحید کی دعوت پیش کرنے کا حکم دیا ۔آپ نے دعا کی کہ میرے بھائی ہارون کو بھی اس ذمہ داری میں شریک فرما دیں ، اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرما لی۔ حضرت موسیٰ نے فرعون کو توحید کی دعوت دی ، جسے اس نے قبول نہ کیا ، اگرچہ یہ فرعون وہ نہیں تھا جس کے گھر میں آپ کی پرورش ہوئی تھی لیکن پھر بھی اس نے موسیٰ علیہ السلام کے بچپن محل میں گزارنے کو ایک احسان کے طور پر پیش کیا۔پھر آپ کو جادو گر قرار دیا گیا اور دربارمیںآپ کا جادوگروں سے مقابلہ کرایاگیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کی مدد کی اور جادو گر آپ پر ایمان لے آئے۔ حضرت موسی ٰنے بنی اسرائیل کو وہاں سے ہجرت کر اکے فلسطین لے جانے کے خدائی منصوبے پر عمل کیااور انہیں بحیرہ احمر پار کرا کے صحرائے سینا لے آئے۔ اس جگہ پر وہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا کہ اللہ کے حکم سے حضرت موسیٰ کے سمندر پر لاٹھی مارنے کے نتیجے میں پانی نے ان کے لیے خشکی کا راستہ بنا دیا۔ حضرت موسیٰ اور ان کی قوم بنی اسرائیل سمندرپار کر گئے ۔ فرعون اور اس کا لشکر جو ان کے تعاقب میں آرہاتھا، اس میں غرق ہو گیا۔ آپ جب اپنی قوم کو لے کر صحرائے سیناچلے گئے تو وہاں آپ کی قوم پر ایک خاص وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے من و سلویٰ( من ایک روایت کے مطابق خشک میوہ تھا جو اوس کی شکل میں گرتا تھا اور سلویٰ بٹیر کے مانند پرندے تھے جو آسانی سے شکار ہو جاتے تھے) نازل ہوتا رہا۔ صحرائے سینا میں آپ نے بنی اسرائیل کو اللہ کے راستے میں جہاد کرنے اور فلسطین میں اپنی حکومت کے قیام پر ابھارا ، لیکن ایک لمبے عرصے تک غلامی کی زندگی بسر کرنے کے باعث ، ان میں بزدلی پیدا ہو گئی تھی اور جہاد کرنا ان کے لیے ممکن نہ رہا تھا۔ جہاد سے ان کے انکار کے باعث اللہ تعالیٰ نے فلسطین کی ارض مقدس ان کے لیے حرام قرار دے دی ۔ پھر چالیس سال صحرا میں بھٹکنے کے بعد ان کی اگلی نسل نے جنگ کر کے وہ علاقہ واپس لے لیا ، جو اس سے پہلے ان کے آباو ¿ اجداد حضرت اسحاق اور یعقوب کی ملکیت ہو ا کرتا تھا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام

بنی اسرائیل میں ہزاروں سال سے جو نبوت کا سلسلہ چلا تھا، اس کا اختتام حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ہوا۔ حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے۔ ان کے بعد بنی اسرائیل کو نبوت کے منصب سے ہٹا کر یہ منصب بنی اسماعیل کو عطا کر دیا گیا۔ آپ یہودی خاندان میں سے تھے اور بیت لحم شہر میں کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے۔ آپ کا بچپن اور لڑکپن کا زیادہ تر عرصہ وہاں کے ایک شہر ناصرہ میں گزرا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو متعدد معجزے عطا کیے گئے ، مثلاً آپ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو ٹھیک کر دیتے اور بچپن ہی میں باتیں کرنے لگ گئے تھے۔ مردے کو زندہ کر دیتے ۔ مٹی سے پرندے بنا کر ان میں روح پھونک دیتے۔آپ یہ بھی بتا دیتے تھے کہ کسی نے کیا کھایا ہے، کیا خرچ کیا ہے اور گھر میں کیا ذخیرہ کر رکھا ہے۔ سب سے بڑا معجزہ آپ خود تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بغیر باپ کے پیدا کیا۔ عیسائی آپ کو روح اللہ اور اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ نے زندگی بھر شادی نہ کی، نہ اپنے رہنے کے لیے کوئی گھر بنایا۔ حضرت عیسیٰ کے متعلق بعض مذاہب کے لوگوں میں مختلف قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ نصاریٰ میں سے بعض کاکہنا ہے کہ خدا یہی ہے جو مسیح کی صورت لے کر دنیا میں آیا ہے۔ بعض نے انھیں روح القدس(حضرت جبرائیل) اور خدا کا بیٹا کہا۔ بعض انھیں خدا کا جز کہتے تھے جیسا کہ آج کل عیسائیوں کاعقیدہ ہے کہ باپ، بیٹا اور روح القدس تینوں مل کر خدا ہیں۔ اسے تثلیث کا عقیدہ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ کے متعلق تمام غلط عقائد کی تردید کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ نہ خدا تھے، نہ خدا کے بیٹے اور نہ کچھ اور، بلکہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے۔ جب حضرت عیسیٰ نے نبوت کا اعلان کیا۔ زندگی کے تیس سال تک خداوند کی بادشاہت کی منادی کرتے رہے۔ اس ضمن میں آپ تمام فلسطین، دیکاپولس، گلیل، سامریہ اور دریائے اردن کے پار بھی گئے۔تاہم جب یروشلم گئے تو یہودیوں کے سردار کاہنوں، فقیہوں اور فریسیوں (قدیم یہودی فرقہ جو رسم پرستی اور ظاہر داری میں مشہور تھا) نے آپ پر کفر کا الزام لگاتے ہوئے گرفتار کرا دیا ۔ اور رومی حاکم پپلاطس کے ذریعے سے آپ کو صلیب پر چڑھا دیا۔ عیسائیت کے اکثر فرقوں کے مطابق آپ صلیب دیے جانے کے تین دن بعد مردوں میں سے جی اٹھے۔( اس واقعے کو قیامت المسیح کہا جاتا ہے۔)اور اس کے بعدآپ اپنے شاگردوں کو چالیس روز تک دکھائی دیتے رہے جس کے بعد آپ آسمان پر چڑھ گئے۔ ایک عیسائی فرقہ جس کے ماننے والوں کا نام” شہودیہوہ “ہے ، وہ ان سب باتوں کو نہیں مانتے۔ ان کے عقائد کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک نبی تھے اور خدا نہیں تھے۔ اور خدا (یہوہ)ایک ہی ہے۔ ان کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی نہیں دی گئی۔ قرآن مجید میں ہے : اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعویٰ)کی وجہ سے (بھی)کہ ہم نے اﷲ کے رسول، مریم کے بیٹے عیسٰی مسیح کو قتل کر ڈالا ہے، حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی چڑھایا مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لئے معاملہ مشتبہ کر دیا اور بے شک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقینا اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں (حقیقت حال کا)کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں)، اور انھوںنے عیسٰی (علیہ السلام)کو یقینا قتل نہیں کیا۔( النساء155-157)