Mamin Mirza (04-08-2016),muzafar ali (04-08-2016)
حنا انور
اطالوی امریکی اداکار اور ہدایت کار الپاسینو کا کہنا ہے کہ جب آپ کے ساتھ کتاب ہوتی ہے تب آپ تنہا نہیں ہو تے۔کتاب ہمیں ایک الگ ہی دنیا میں لے جاتی ہے۔آج بھی آپ نے کسی خطے کی تہذیب وثقافت اور رہن سہن کے انداز کو سمجھنا ہو تو وہاں کے ادب کو پڑھیے ،آپ اس قوم کی ان باریکیوں کو بھی جان جائیں گے جن سے شاید ان کی اپنی ہی نسل آگاہ نہ ہو ۔کتابیں پڑھنے کا مشورہ تو ہر کسی سے مل جا تا ہے لیکن کسی بھی نئے پڑھنے والے کیلئے یہ طے کرنا ایک مشکل مرحلہ ہو تا ہے کہ وہ کیا پڑھے۔آپ کی یہی مشکل حل کرنے کیلئے ذیل میں دنیا بھر کے کچھ کامیاب اور شہرت یافتہ افراد کی پسندیدہ کتابوں کی فہرست پیش کی جارہی ہے جو یقینا قارئین کیلئے دلچسپی کا سامان کرے گی۔ ’’The Aeneid‘‘مارک زیرک برگ:جب پہلی بار فیس بک کے بانی مارک زیرک برگ نے فیس بک پر اپنی پسندیدہ کتاب کا نام شامل کیا تھا تو وہ کتا ب اینڈرز گیم تھی۔بعد ازاں ایک انٹرویو میں اس نے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب مجھے سائنس فکشن پڑھنا اچھا لگتا تھا لیکن یہ میرا فیورٹ نہیں تھا۔اس انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ورجل کی، دی اینیڈ، ان کی پسندیدہ ترین کتاب ہے۔ دی اینیڈ لاطینی رزمیہ نظم ،19-29قبل مسیح ورجل نے لکھی تھی۔یہ اہل ٹرائے کے پسماندگان کے ایک گروہ کے متعلق ہے،جو یونانیوں کے باعث تباہ شدہ شہر کو چھوڑجاتے ہیں۔شہرچھوڑتے ہوئے ان کا سردار اینیز محسوس کرتا ہے کہ یہ اس کی قسمت میں تھا کہ وہ روم کی بنیاد رکھے۔اینیز اور اس کے پیروکارایک طویل اور کٹھن سفر پر نکلتے ہیں۔تمام مشکلات کے باوجود ،اینیز اور اس کے پیروکار اپنے سفر کو جاری رکھتے ہیں کیونکہ یہ ان کی قسمت میں تھا کہ وہ ایک ایسی شاندار سلطنت کی بنیاد رکھیں جسے دنیا میں کبھی کسی نے دیکھا نہ ہو۔ زیرک برگ کا کہنا ہے کہ اس نے پہلی بار جب یہ کتاب پڑھی تو وہ ہائی سکول میں تھا،لاطینی زبان سے بھی وہ پہلی بار آشنا ہو اتھا۔اس کی اینیز کی زندگی میں کئی مماثلتیں تھیں۔زیرک بر گ نے بھی زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھے تھے۔کس طرح اس نے دنیا کے اس مقبول سوشل نیٹ ورک کی تکمیل کا سفر مکمل کیا تھا وہ بھی ایک الگ کہانی ہے۔زیرک بر گ کا کہنا ہے کہ ایک چیز جس نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا وہ اینیز کی وہ جستجو تھی جس نے اسے اپنی قسمت سمجھ کر ایک نیا شہر تعمیر کرنے کی صلاحیت بخشی۔ ’’competing against time‘‘ٹم کُوک:1982ء کالج سے گریجوایشن کرنے اور آئی بی ایم میں نوکری کرنے کے بعدٹم کوک کمپیوٹر سے آشنا ہوا۔1996ء میںایپل کیلئے اس وقت کام کرنا شروع کیا جب وہ ایک بلین ڈالرز کے نقصان کے ساتھ خسارے میں تھی۔کُوک کو کمپنی کے مینیوفیکچرنگ معاملات کو منظم کرنے کیلئے قرضہ دیا گیا۔اس نے منیو فیکچرر زاور ڈسٹری بیوٹرز کے نیٹ ورک کو سادہ بنایا ،انوینٹری کو بہتر انداز میں ٹریک کرنے کیلئے ایپل کے نظام کو بہتر بنایا ۔اور جب ایپل دنیا کی سب سے کامیاب کمپنی بن گئی ،تو بطور ایک شاندار منیجر کُوک کی صلاحیتوں کو بے حد سراہا گیا۔2011ء میں اسٹیو جابز کی وفات کے بعد کُوک کو ایپل کا سی ای او بنا دیاگیا۔ کُوک جس کتاب سے بے حد متاثر تھا ،وہ جارج سٹالکر جونیئر اور تھامس ایک ہائوٹ کی competing against time(وقت سے مقابلہ)تھی۔یہ کتاب کمپنی کے مختلف پہلوئوں میں وقت کی منصوبہ بندی کس قدر ضروری ہے،کے بارے میں ہے۔جب ایک کمپنی وقت کی منصوبہ بندی کر لیتی ہے،تو اس کے اخراجات میں واضح کمی ہو جاتی ہے اور گاہکوں کو خوشی ملتی ہے۔اس کتاب سے آئیڈیاز لے کر کوُک نے اپنے ملازمین کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ تمہارے گاہک کیا چاہتے ہیں اور کب چاہتے ہیں،کیونکہ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تمہارے حریف کر لیں گے۔ ’’الکیمسٹ‘‘وِل سمتھ اور فارل ویلیمز: ولسمتھ ،میڈونا اور فارل ویلیئم نے ایک طویل عرصے تک موسیقی کی دنیا پر راج کیا ہے۔ان تینوں نے ایک ہی کتاب(پائلو کوہلو کے شہر ہ آفاق ناول الکیمسٹ ) کوپسندیدگی کی سند دی اور یہ تینوں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس ناول نے ان کی زندگیوں کو بدل دیا۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ بکنے والے اس ناول کی کہانی سنتیاگو نامی ایک ہسپانوی لڑکے کے گرد گھومتی ہے،جسے ایک خزانے کی پیش گوئی کرتا خوب نظر آتا ہے۔اس خواب کی تعبیر ڈھونڈنے وہ مصر کا سفر کر تا ہے۔سفر پر نکلنے سے پہلے،وہ شگونوں کے متعلق سیکھتا ہے۔ایک انسان اپنی زندگی میں جو کچھ کرنے کی خواہش رکھتا ہے، شگون کہلاتے ہیں۔یہ ایک فطری خواہش ہے اور بچے اس پر کھل کر اظہار بھی کرتے ہیں،اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب آپ مستقبل کی ان علامات کی پیروی کرنے کی کو شش کرتے ہیں تو پوری کائنات اسے آپ کو ملانے کی کوشش میں لگ جاتی ہے۔اگر آپ ان علامتوں کے اشاروں پر چلیں تو ناممکن کا حصول بھی ممکن ہو جا تا ہے،جیسے کیمیا گر سونے کی تلاش کرتا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران ولسمتھ نے انتہائی پر جوش انداز میں اس ناول کا ذکر کیا اور بتا یا کہ کس طرح اس نے اپنی زندگی لوگوں کو یہ دکھانے کیلئے وقف کر دی کہ اگر آپ کوشش کریں تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔وہ اپنی زندگی کو امکانات کے دھارے پر چھوڑنا چاہتا ہے ،حتیٰ کہ وہ خود کو استعاری طور پر الکیمسٹ(کیمیاگر) ہی سمجھتا ہے۔فارل وییلئم کی بات کریں تو اس کا کہنا ہے کہ یہ کتاب میرے لئے بپتسما سے کم نہیں ۔میں اپنے ماضی پر نظر دوڑاتا ہوں تو بہت سے لوگ دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے مجھے میرے مستقبل کی علامات دیکھنے میں مدد کی۔ ٭٭٭٭
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Mamin Mirza (04-08-2016),muzafar ali (04-08-2016)
thanks for sharing...............!!!
!میری زمیں میرا آخری حوالہ ہے۔۔۔۔
thanks for nice sharing
Kis Ki Kya Majal Thi Jo Koi Hum Ko Kharid Sakta Faraz,..Hum Tu Khud Hi Bik Gaye Kharidar DekhKe..?
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks