muzafar ali (04-07-2016)
ڈپٹی نذیر احمد
یہاں مجھ کو جو تکلیف تھی وہ رتھی حقے کی۔ میں کیا جانتا تھا کہ حیدر آباد ایسا نا معقول شہر ہے۔ اچھا تمباکو نہیں، حقہ نہیں، نیچا نہیں ،قفلی نہیں، بڑی بے حرمتی سے گزرتی ۔ وہاں اگر میں تصنیف و تالیف کا خیال کرتا تو کور نمکی کا مجرم ہوتا۔ غرض زمانِ قیام حیدر آباد میں تعلیم و تعلّم سے بے تعلقی ہی سی رہی ،مگر ایک سر سالار جنگ کے حکم سے میں ایڈمنسٹریشن پر چند رسالے حضور پر نور کے ملاحظے کے لیے تصنیف کیے( وکفیٰ بہ فخر) اور ایک بڑا بہت بڑا کام یہ کیا ہے کہ بدون اس کے کارسر کار میں کسی طرح کا فتور واقع ہو چھ مہینے سترہ دن میں قرآن حفظ کر لیا۔ سرسالار جنگ کے انتقال کے بعد ان کے سبھی آوردوں کے پائے بثات لڑ کھڑا اُٹھے اور جو سب سے پہلے بھاگ کھڑا ہوا وہ میں تھا۔ حیدر آباد کے ساتھ میں نے نوکری کے پیشہ کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہا ،کسی کی بھی ہو اور سرکار عالی نظام سے وظیفہ لے مزے سے گھر آ بیٹھا۔ فراغ و سبک دوشی و بے نوائی نہ درباں کی منّت نہ احساں عسس کا میںنے مدرسی، ڈپٹی انسپکٹری اور تحصیل داری اور ڈپٹی کلکٹری اور بالآخر سرکار نظام میں صدر تعلقہ داری یعنی ایک ڈویژن کی کمشنری نہیں بلکہ گورنری کی ہے اور ان سب خدمتوںمیں تھوڑی بہت اضافی حکومت تو تھی ہی، مگر اب جو پچھلی زندگی کا کبھی خیال کرتا ہوں تو کسی شان میں محکومی کی ایذائوں سے محفوظ نہیں رہا۔ ہاں ایک وقت تھا کہ تنزل اور جرمانہ سے ڈرتا تھا، پھر ایک وقت وہ ہوا کہ کمشنر اور بورڈ کے منہ سے تم کی سہار نہیں ہوئی تھی۔ غرض نوکری کو عموماً پیشہ معزز سمجھنا محض خیالی بات ہے۔ عزت اور ذلت پیشہ پر موقوف نہیں بلکہ عزت اور ذلت کا مدار انسان کا اپنا کردار ہے۔ ساری عمر کام اور محنت میں گزاری۔ مشغولی شرط زندگی ہو گئی تھی۔ میں نے پڑھنے لکھنے سے بے کاری کی تلافی کر لی اور یہ نہ کرتا تو اب تک کبھی کامر بھی گیا ہوتا۔ پندرہ، سولہ برس گھر بیٹھے ہو گئے۔ پڑھنے لکھنے کی بدولت نہ کبھی ایک منٹ کے لیے، گرمیٔ صحبت کی تمنا کی اور نہ تنہائی سے تنگ دل ہوا: ؎ہے آدمی بجائے خود ایک محشرِ خیال ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو اس خانہ نشینی کے زمانے میں ابنِ الوقت، محصنات، رویائے صادقہ، تین تو ناول لکھے، وہ انعاموں کا سلسلہ تومدتوں سے موقوف ہے، جو خودستائی کام حیلۂ شرعی تھا۔ اب تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ میری ساری کتابیں انعامی اور غیر انعامی جائز طور پر بار بار چھپتی رہتی ہیں اور مرۃ العروس کو تو لوگوں نے ایسا سر چڑھایا ہے کہ انگریزی، بنگالی، گجراتی، بھاشا،پنجابی، کشمیری زبانوں میں میرے علم و اجازت سے ترجمے کیے ہیں اور مجھ سے بے پوچھے کسی نے ترجمہ کر لیا ہو، تو وہ جانے اور اس کا ایمان۔ (مشاہیر کی آپ بیتیاں )
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
muzafar ali (04-07-2016)
boht khoob sharing mazid achi achi sharing ka intzar rahe ga share karne ka shukrya
Kis Ki Kya Majal Thi Jo Koi Hum Ko Kharid Sakta Faraz,..Hum Tu Khud Hi Bik Gaye Kharidar DekhKe..?
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks