Bohat Khoob
Zabardast
دریائے نیل خاموشی کے ساتھ رواں دواں تھا اور جب اس سے قریبی اہرام مصر پر صبح سورج کی ابتدائی کرنیں پڑتیں تو افق کے مقابل بہت پرشکوہ نظر آتا۔ سورج جب اپنی شعاع کو اہرام سے ٹکرا کر صحرا کی ریت پر پھینکتا تو وہ پرامن سرزمین بھی جاگ جاتی۔
اس وقت صرف کچھ چڑیوں کی چہچہاہٹ اور کہیں سے گائے کے بولنے کی آواز آئی۔
تائی اور بویا، دو سیاہ چمکدار آئبیں بھی اپنے گھونسلے میں جاگے جو دریا کے کنارے سے کچھ فٹ اوپر تھا۔ دونوں نے باری باری اپنے پیروں کو پھیلا کر انگڑائی لی اور پھر کھڑے ہو کر اپنی پتلی اور لمبی ٹانگوں کو سیدھا کرنے لگے۔ منہ سے بغیر کوئی آواز نکالے۔ دونوں نے لمبے سرکنڈوں سے گزر کر تیز بہتے ہوئے دریا کی پرواز کی۔ جیسے جیسے سورج آسمان میں اوپر جاتا گیا ویسے ویسے گرمی کی شدت بھی بڑھتی گئی۔ دونوں پرندوں نے بھی اپنے سیاہ پروں سے حرارت محسوس کی۔ تائی اور یویا نے پہلے سرکنڈوں کے نچے حصوں پر تھونگے مار کر اور پھر کالے کیچڑ میں ، کھٹملوں اور دریا کے کنارے کم پانی میں چھینٹے اڑاتی مچھلیوں کو تلاش کرنا شروع کیا۔ جب بھی انہیں کوئی مچھلی نظر آتی تو وہ اسے اپنی تیز مڑی ہوئی چونچوں کے ذریعے گھس کر نکال لیتے۔
جب تائی اور یویا کھانے میں مشغول تھے تو انہوں نے دریا کے کنارے کچھ بچوں کو دیکھا جو چھینٹے اڑانے اور تیرنے میں مصروف تھے۔ ایک چھوٹا لڑکا جو کچھ ہی دور بیٹھ کر پہلے اپنے ہاتھ میں کیچڑ بھرتا پھر ہوا میں اچھال دیتا۔ اس کے سنہری بال کیچڑ میں آکر لگنے چیخ رہی تھیں۔ تائی کو یہ سب بہت اچھا لگا۔ اس دوران ایک بحری جہاز وہاں سے گزرا، جس کا بادبان پھڑپھڑا کر ہوا میں سنسنی پیدا کررہا تھا۔ تائی کی آنکھیں جہاز کے عرشے پر کھڑے مرد اور عورت پر پڑی جو تیز ہوا کے مقابلے پر جم کے کھڑے ہوئے تھے۔
جیسے ہی پویا نے ایک بڑا سا بھنورا نکلا تو اس کی نظر بھی ایک شاندار کشتی پر پڑی جو کہ بہت سجی ہوئی تھی اور شاید اسیر لوگ ہی اس میں سفر کر سکتے تھے۔ کشتی کے تختہ پر انار، لیموں اور نارنگیوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ یویا نے ایک گہرا سانس لیا اور اب وہ ایک ترش مہک سونگھ سکتا تھا۔ اس نے دوبارہ ایک نچلی پرواز کی اور دریا سے ایک گھونٹ پیتا ہوا واپس اوپر آگیا۔ اب اسے محسوس ہوا کہ دریا مزید تیز ہو گیا ہے۔ تائی نے بھی اس بات کو محسوس کیا۔ اس نے اوپر دیکھا تو کالے بادل نظر آئے۔ ” اب ضرور بارش ہوگی۔“ تائی نے یویا سے کہا ہمیں طوفان سے پہلے پہلے نکل جانا چاہیے۔“
انہوں نے جیسے ہی اڑنے کی کوشش کی تو نہ اڑ سکے کیوں کہ ان کے پیر کیچڑ میں پھنس گئے تھے۔
”ہماری مدد کرو! ہماری مدد کرو۔ ہم چپک گئے ہیں۔“ تائی زور زور سے چیخا۔
یویا کے اب تک چونچ میں مچھلی تھی۔ اس نے بھی پکارا۔
”م.... دد! مم.... دد! اس لیے لفظ مدد بولنا بہت مشکل ہو رہا تھا ۔ کیوں کہ اس کے حلق میں مچھلی جو پھنس گئی تھی۔ دونوں آئبوں نے سرکنے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ اب تائی نے دریا کی طرف دیکھا۔ بادبانی جہاز گزر چکا تھا اور وہ کشتی بھی جا چکی تھی اور اب صرف کھیلتے ہوئے بچے دیکھے جا سکتے تھے۔ اس نے دیوانہ وار ہر طرف نظر دوڑائی۔ اچانک اسے دو بڑی بڑی آنکھیں اپنی طرف بڑھتی محسوس ہوئیں اور پھر تائی کے ہوش اڑ گئے۔ کیوں کہ وہ ایک بھوکا مگر مچھ تھا۔ کاٹی نے یوبا کوپر مار کر متوجہ کیا اور اب دونوں نے ساتھ مل کر پورا زور لگایا اور جیسے ہی مگر مچھ نے انہیں کھانے کیلئے اپنا بڑا سا منہ کھولا، تائی اور یویا نے اس کے دانتوں سے بچتے ہوئے خود کو نکال لیا اور جلدی سے اڑ گئے۔ تائی اور یویا کا گھونسلہ بارش سے بھیگ چکا تھا اور اب انہیں کسی خشک جگہ کی تلاش تھی۔ اڑتے اڑتے وہ صحرا میں کسی قسم مینار پر بیٹھ گئے جو آدھا اندر دھنسا ہوا تھا۔ جب انہوں نے کچھ دیر آرام کر لیا تو تائی کو وہاں سے ایک چھپکلی نظر آئی جبکہ یویا کو ایک چھونا سا بچھو ملا۔ دونوں اپنے شکار کو پکڑنے کیلئے سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک زوردار نتھنوں کی آواز انہیں پیچھے سے سنائی دی۔ انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ایک پتلی سی زبان نکلی ہوئی دکھائی دی اور دو گول گول آنکھیں جو انہیں گھور رہی تھیں۔ ڈر کے مارے دونوں نے وہاں سے اڑ کر مغرب کی طرف سفر شروع کیا اور اونٹ نے انہیں اس طرح سہما دیکھ کر ہنسنا شروع کر دیا۔
کاٹی اور یویا اب مایوسی سے کسی جگہ کی تلاش میں تھے۔ جہاں وہ مچھلیوں اور کھٹملوں کو کھا سکیں لیکن کوئی انہیں نہ کھا سکے۔
”چلو وہاں چلتے ہیں۔“ تائی نے ایک دریا کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ تائی اور یویو گرم ریت میں اترے اور یویا نے ادھر ادھر کا جائزہ لینے کے بعد کہا۔
”ہوں ں.... یہ سب سے عجیب جگہ ہے جو میں پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں۔ نہ کھجور کے درخت اور نہ ہی سرکنڈے۔ یہ کون سی جگہ ہے؟“
تائی نے کہا۔” یہاں کم از کم ہم پر مگر مچھ بھوکی نظروں سے حملہ نہیں کریں گے۔“
”آہا.... وہ دیکھو کھٹمل۔“
دونوں آئبیں کیڑوں کو کھانے میں مصروف تھے کہ اچانک ایک بڑے سے سائے نے ان پر چھا_¶ں کر دی اور وہ بڑا ہوتا چلا گیا۔
”یالٹیکس! وہ دیکھو کیا ہے۔“ تائی چیخا۔
”اتنا بڑا جہاز اتنے پتلے سے دریا میں۔“ یویا نے کہا
ارے وہ کیا لکھا ہے ۔” سو .... ئز کنال ۔ اچھا، تو یہ کنال ہے۔ تبھی تو کہوں مجھے کوئی مچھلی کیوں نظر نہیں آرہی۔ یہ دریا نہیں کنال ہے۔“
دونوں پرندوں نے وہیں کنال پر رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے وہاں گھونسلہ بنایا اور کھانے پینے کیلئے جہازوں سے پھینکی گئی چیزوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اب آئبیں کو کسی بارش اور مگر مچھ سے خطرہ نہیں تھا۔ اگرچہ اب ان کے لیے کوئی مچھلی نہیں تھی مگر کھٹمل کافی تھے۔ اب سیاہ چمکدار آئبیں کو اور کیا چاہیے؟
Similar Threads:
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Bohat Khoob
Zabardast
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks