Thuk gayay wabaal e zindagi sai
bhool gayay jamal e zindagi ko ..............
!!!کبھی ہم خوبصورت تھے۔۔۔۔
میرے بچپن میںپی ٹی وی سے افشاں احمد اور محمد علی شہکی کی آوازوںمیں ایک گیت بہت نشر ہواکرتا تھا
میرے بچپن کے دن
کتنے اچھے تھے دن
آج بیٹھے بِٹھائے کیوں یاد آگئے۔۔۔!!
اس وقت اس گیت کی سمجھ نہیں آتی تھی مگر عمر کا ایک حصہ اس دنیا میں گزار لینے اور بچپن کے رخصت ہولینے کے بعد ،میں یہ بات تہہِ دل سے مانتی ہوں کہ میرے بچپن کے دن ہی سب سے اچھے تھے۔۔!
کیا حسین دن وقت تھا،کیا سہانے دن تھے۔نہ غمِ زندگی ،نہ غمِ روزگار۔نہ کسی کی دل آزاری والی باتیں آزردہ کرتی تھیں،نہ تلخ نوائیاں تکلیف دیتی تھیں۔جھگڑے بھی ہوتے تو دل میلے نہیں ہوتے تھے۔خلوص،محبت ،دوستی ،یاری سب ہی کچھ خالص لگا کرتا تھا۔لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لئے وقت ہوا کرتا تھا۔اسٹینڈرڈز کی پروا تھی نہ ہی حیثیتوں اور مرتبوںکے بلند مرتبان۔۔۔۔!!
زندگی سادہ اور آسان تھی۔نہ مہنگائی کے رونے تھے ،نہ لوڈشیڈنگ کا عذاب۔کبھی باجی بجلی رخصت بھی ہوجایا کرتی تھیں تو واپسی کی راہ نہ بھولتی تھیں۔نہ ٹریفک کا بے ہنگم شور تھا،نہ سی این جی کی آئے دن کی بندش تھی،نہ دہشت گردی ،نہ بھتہ خوری ،ٹارگٹ کلنگ۔اگر کبھی حالات ناسازگار ہو بھی جایاکرتے تھے تو کرفیونافذ ہوجایا کرتا اور فوج کے دستے پورے شہر میں گردش کرتے تھے۔اس کرفیوکا،یعنی پابندی کا بھی اپنا ہی مزہ ہواکرتاتھا۔گو سیاسی جوکر اُس وقت بھی برسرِپیکار تھے۔مگر حاکمِ وقت میں ایمان اور غیرت نام کی شے موجود تھی۔۔۔!!!
تفریح کے نام پر بے حیائی اور بے ہودگی کو فروغ دینے والے مادر پدر آزاد ذرائع ابلاغ نہ تھے۔صرف ایک چینل پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) تھا،جس کی نشریات تین بجے سہ پہر شروع ہوتی تھیں اور رات ساڑھے گیارہ بارہ بجے ختم ہوجایا کرتی تھیں۔اِن چند گھنٹوں کی نشریات میںبچوں سے لے کر بزرگوں تک سب ہی کے لئے تفریحی اور معلوماتی پروگرام شامل ہوتے تھے۔خبریں اگر چہ سنسر شدہ اور سرکاری ہوا کرتی تھیں لیکن اِس وقت کے اخباری چینلز کے کارنامے دیکھتے ہوئے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سنسر شدہ خبریں ہی بہتر تھیں،حقائق کے لبادے میں فتنے و فساد کو ہوا نہیں ملتی تھی۔کبھی کبھی بے خبری بھی نعمت محسوس ہوا کرتی ہے۔1988ءپاکستان میں پہلی بار تین گھنٹوں پر محیط صبح کی نشریات کا آغاز ہوا۔تب سے اب تک مستنصر حسین تارڑ میرے اور میری نسل کے بچوں کے چاچا جی ہیں۔۔۔۔!!!
دوسری بڑی تفریح ہمدرد کا ماہ نامہ ”نونہال “ تھا۔جس کے مطالعے کے لئے چھوٹے بھائی کے ساتھ ہمیشہ میرا جھگڑا ہوا کرتا تھا۔کیونکہ وہ
پڑھنے کے بجائے پورے رسالے میں موجود تمام تصاویر پر بناءامتیاز مردو زن کے بال پین سے چہرے پر داڑھی مونچھیں اور آنکھوں پر عینک بنا دیا کرتاتھا۔جون جولائی میں نونہال کا خاص نمبر شائع ہوا کرتا تھا جسے ہم گرمیوں کی چھٹیوں کا انعام گردانتے تھے کیونکہ اُس میں صفحات کی تعدادزیادہ ہونے کی وجہ سے کہانیاں بھی زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ ہماری اماں زبردستی چھٹیوں کا کام کروایا کرتی تھیں،جو کہ ہماری معلمہ صاحبہ چیک کرنے کی زحمت بھی نہیں کیا کرتی تھیں۔اسکول کا کام کرنے کے بعد جو وقت بچ جاتا تھا وہ نیم کے درخت پر جھولا جھولتے اور برف پانی،پکڑم پکڑائی،پٹھوباری،چارکونے،اونچ نیچ،رسی کودائی،پہل دوج،کھو کھو،لوڈو،کیرم سادہ سے کھیل کھیلتے گزار دیا کرتے تھے۔پلے اسٹیشن نہیں تھا۔تھری ڈی گیمز نہیں تھے۔ابا کی طبیعت کرم پر مائل ہوتی تو وہ ہمیں کلفٹن سیر و تفریح کے لئے لے جاتے تھے ،وہ بھی جلوس کے ہمراہ،یعنی خاندان بھر کو ساتھ لاد کر۔۔۔!!!
مجھے یاد ہے میں اپنی نانی کے ساتھ ہر ہفتے جمعرات بازار سے دو دو روپے کے اسٹیل کے کھلونا برتن لا کر جمع کرتی تھی۔پورے باورچی خانے کا سامان تھا میرے پاس،جو میری پھوپھی کی نواسی لے گئیں اور میرے بھولے اماں ابا نے بھی دان کرنے میں کوئی اعتراض اور تردد نہ کیا۔۔۔!!!
میں وہ نکمی انسان ہوں جو بھا کی بھرپور کوششوں کے باوجودزندگی میں سائیکل چلانا نہ سیکھ سکی۔جب تک بھا سائیکل تھامے رہتے ،میرا توازن برقرار رہتا۔اِدھربھا نے سائیکل اپنی گرفت سے آزاد کی اُدھر مابدولت سائیکل سمیت زمیں بوس ہوگئے۔ہاں لٹو بہت خوبی سے چلایا کرتی تھی پر گدگدی کے باعث ہتھیلی پر اٹھانے کے فن سے دور ہی رہی۔ کرکٹ یوں کھیلی کہ چوٹ لگنے کے ڈر سے ہمیشہ امپائر بنا کر کھڑی کر دی جاتی تھی اور امپائر بھی ایسی کہ جو اپنے کھلاڑیوں کے کھیل سے زیادہ اردگرد کھیلتے دوسرے بچوں کے کھیل دیکھنے میں اس قدر منہمک ہوتی کہ معلوم ہی نہ ہو پاتاکب بھا نے وسیم کو آو¿ٹ کردیا ۔۔۔۔۔!!!
چھوٹے بھائی کو بازار لے جانا سب سے زیادہ خطرناک ہواکرتا تھا۔صاحب بہادر کو اگر کھلونے کی دکان پر کوئی کھلونا پسند آجاتا اور اماں یا ابا فوری کے بجائے بعد میں دلانے کا وعدہ کرتے تو موصوف بخار چڑھا لیا کرتے تھے اور جیسے ہی انھیں وہ کھلونا لا کر دیا جاتا،جناب کا بخار اڑن چھو ہو جایا کرتا تھا۔اسی بخار کے ذریعے سے چھوٹے مرزا صاحب اپنا اسکول تبدیل کروانے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے۔۔۔!
گھر کے صحن میں موتیے کے پھولوں کا خاصا بڑا پوداتھا۔ہر شام جب اس پودے میں لگی کلیاں چٹخ کر پھول بنتی تھیں تو ان کی مہک سے آنگن ہی نہیں پورا گھر مہکا کرتا تھا۔میرے ددھیالی رشتے دار جب بھی ملاقات کے لئے آتے گھر میں داخل ہوتے ہی ان پھولوں پر ایسے حملہ آور ہوتے جیسے جرمن فوجی روسی و امریکی افواج پردھاوابولتے تھے۔۔۔!
پڑوسی ایسے تھے کہ ہر دُکھ درد ،غم خوشی میں سب سے پہلے شریک ہوا کرتے تھے۔مجھے یاد ہے ہماری پڑوسن کو جب بھی کوئی مشورہ کرنا ہوتا ،وہ میری نانی کے پاس آتی تھیں۔زندگی میں سکون تھا،شہر میںا من تھا۔ملک میں افراتفری نہ تھی۔رشتوںسے توقعات تھیں ،نہ دوستوں سے امیدیں۔تکلیف دہ مناظر دِکھائی دیتے تھے،نہ خبریں سنائی پڑتی تھیں۔گھونسلوں کے لئے تنکے تلاشتی چڑیوں کو پنکھے کی زد میں آکر زخمی ہونے سے بچانا بھی انوکھا معرکہ لگتا تھا۔۔۔۔!
پر نہ وقت ٹھہرتا ہے نہ زندگی رکتی ہے۔خواہ اچھا ہویا براوقت کی خاصیت روانی ہے۔بس فرق یہ ہے کہ اچھا وقت کتنا ہی طویل کیوں نہ ہوہمیں ہمیشہ مختصر ہی لگا کرتا ہے اور برا وقت مختصر ہونے کے باوجود طویل ترین۔سو اس خوبصورت وقت کو گزرنا تھا ،سو گزر گیا۔اب جو زندگی ہے وہ معلوم نہیں کیوں بے زاریت کے لبادے میں لپٹی ہے۔بے دلی کی دھند میں گھری ہے۔کبھی ہم زندگی جیا کرتے تھے،اب زندگی ہمیں گزارتی ہے بے مایہ ،حقیر ذروں کی طرح۔بہت سے چہرے تھے جو وقت کی گرد میں کہیں کھو گئے،کچھ ابدی نیند سو گئے۔نہ نیم کا درخت رہا،نہ جھولا ہے نہ ہم جولیاں ۔نہ موتیے کا پودارہا،نہ وہ مہکار۔۔!
اب نہ گھونسلے بناتی چڑیاں دِکھائی دیتی ہیں۔ نہ ہی ان کی چہچہاہٹ گرمیوں کی گرم اور خاموش دوپہروں میں نغمگی بکھیرتی ہے۔ایک جامد خاموشی ہے۔ایک گہراسکوت ہے۔ٹھہراو¿نہیں ،جمود ہے۔نہ ٹوٹنے والا جمود۔بے حسی ہے۔بےگانگی ہے۔انسانوں کے بیچ تنہائی ہے۔آوازوں کے درمیاں سناٹے ہیں۔نا ختم شُدکشمکش ہے۔اب تو صرف یہی جی کرتا ہے کہ
کاش میں پلٹ جاو¿ں بچپن کی وادی میں
جہاں کوئی ضرورت تھی
نہ کوئی ضروری تھا۔۔۔!!
میرے بچھڑوں کو مجھ سے ملا دے کوئی
میرا بچپن کسی مول لا دے کوئی۔۔!
میرے بچپن کے دن۔۔۔!!!
مامن مرزا
Similar Threads:
Thuk gayay wabaal e zindagi sai
bhool gayay jamal e zindagi ko ..............
Oyyy hoyyyy
By had umdaa tehreer...
kash k wo din lout aaty......
per Zindagi ese ka nam hy
lakin phr bhi pehly wali zindagi sach me aachi te....
ایک یہی تو فن سیکھا ہے ہم نے
جس سے ملیے اسے خفا کیجے
ہے تفاخر میری طبیعت کا
ہر ایک کو چراغ پا کیجے
میری عادت ہے روٹھ جانے کی
آپ مجہھے منا لیا کیجے
bohat khoob
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks