ایک رنگیں نقاب نے مارا
حُسن بن کر حجاب نے ماراجلوۂ آفتاب کیا کہیئےسایۂ آفتاب نے مارااپنے سینے ہی پر پڑا اکثرتیر جو اضطراب نے مارانگہِ شوق و دعویء دیداراس حجاب الحجاب نے ماراہم نہ مرتے ترے تغافل سےپرسش بے حساب نے مارالذت دید بے جمال نہ پوچھدرد بے اضطراب نے ماراچھپتے ہیں اور چھپا نہیں جاتااس ادائے حجاب نے ماراحشر تک ہم نہ مرنے والوں کومرگِ نا کامیاب نے ماراپاتے ہی اک اشارۂ نازکدم نہ پھر اضطراب نے مارادل کہ تھا جانِ زیست آہ جگراسی خانہ خراب نے مارا٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks