44



یاد ہیں ، اے ہمنشیں ! تجھے وہ دن کہ، ذوقِ وجد میں

زخم سے گرتا، تو میں پلکوں سے چنتا تھا، نمک
داد دیتا ہے مرے زخمِ جگر کی، واہ واہ!
یاد کرتا ہے مجھے ، دیکھے ہے وہ جس جا، نمک
چھوڑ کر جانا تنِ مجروحِ عاشق حیف ہے !
دل طلب کرتا ہے زخم، اور مانگے ہیں اعضا، نمک




Similar Threads: