شامِ غربت


دشت میں سوختہ سامانوں پہ رات آئی ہے

غم کے سنسان بیابانوں پہ رات آئی ہے
نورِ عرفان کے دیوانوں پہ رات آئی ہے
شمعِ ایمان کے پروانوں پہ رات آئی ہے
بیت شبیر پہ ظلمت کی گھٹا چھائی ہے
درد سا درد ہے تنہائی سی تنہائی ہے
ایسی تنہائی کہ پیارے نہیں دیکھے جاتے
آنکھ سے آنکھ کے تارے نہیں دیکھے جاتے
درد سے درد کے مارے نہیں دیکھے جاتے
ضعف سے چاند سارے نہیں دیکھے جاتے
ایسا سنّاٹا کہ شمشانوں کی یاد آتی ہے
دل دھڑکنے کی بہت دور صدا جاتی ہے
٭٭٭







Similar Threads: