حضرت مخدوم عبدالرشیدؒ، حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے چچا زاد بھائی تھے۔ محترم چچا حضرت شیخ احمد غوثؒ کے انتقال کے بعد وہی گھر اور جائیداد وغیرہ کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کی غیر حاضری میں ایک طویل عرصے تک وہ کوٹ کروڑ میں رہے۔ حضرت شیخؒ کی ہمشیرہ بی بی کمال خاتون سے شادی کی اور پھر کوٹ کروڑ سے ہجرت کر کے ملتان آئے اور قلعۂ قدیم میں اس جگہ قیام فرمایا، جہاں آج کل حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کا مزارِ مبارک ہے۔ ایک دن حضرت مخدوم عبدالرشیدؒ کی خانقاہِ عالیہ میں علماء اور مشائخ کا اجتماع تھا۔ بحث و مناظرہ میں پورا دن گزر گیا، پھر جب تمام علماء اور مشائخ خانقاہ سے چلے گئے تو عصر کے قریب حضرت مخدوم عبدالرشید ؒ پر غنودگی طاری ہو گئی۔ آپؒ نے خواب میں اپنے والد محترم کو دیکھا، حضرت شیخ احمد غوثؒ فرما رہے تھے؛فرزند! تمہارے بھائی شیخ بہاء الدین زکریاؒ دین کی سعادتوں سے مالا مال ہو کر ملتان آرہے ہیں۔ اس لئے تمہیں لازم ہے کہ اپنی ہمشیرہ کو اُن کے نکاح میں دے دو اور خود حرمین شریفین کی زیارت کے لئے روانہ ہو جائو حضرت مخدوم عبدالرشید ؒ خواب سے بیدار ہوئے۔ برادرِ بزرگ کی آمد کی بشارت سن کر نہایت مسرور ہوئے اور بڑی بے چینی کے ساتھ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ؒ کا انتظار کرنے لگے۔ حضرت شیخؒؒ اپنے بزرگ دوست حضرت سید جمال الدین تبریزی ؒ کے ہمراہ نہایت اطمینان سے سفر کر رہے تھے کہ اچانک حالات نے ایک نئی کروٹ لی، جب حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ غزنی کے مضافات میں داخل ہوئے تو پتا چلا کہ ملتان کے حاکم ناصر الدین قباچہ اور غزنی کے خلجیوں کے درمیان جنگ چھڑ چکی ہے۔ اس لئے ملتان جانے والے تمام راستے بند ہیں۔ خلجیوں کے بہت سے قبائل جنوب مشرقی افغانستان میں آباد تھے۔ روزانہ سینکڑوں جانباز بھرتی کر کے محاذِ جنگ پر بھیجے جا رہے تھے۔ حضر ت شیخ بہاء الدین زکریاؒ اس صورتِ حال کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ ایک دن اس گائوں میں داخل ہو گئے، جہاں سے ناصر الدین قباچہ کی مملکت کی سرحد شروع ہوتی تھی۔ حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ نے کچھ دنوں تک اسی گائوں میں قیام فرمایا۔ اگرچہ مقامی باشندے آپ ؒ کی ذاتِ گرامی سے نا آ شنا تھے، لیکن جب سورج چمکتا ہے تو بینا اور نا بینا سبھی اس کی حرارت اور روشنی کو محسوس کرتے ہیں۔ نتیجتاً غزنی کے لوگ بھی آفتاب ِ معرفت کی تابانی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ہزاروں گم کردہ دل انسان آپؒ کے آستانۂ عالیہ پر حاضر ہوتے اور اپنے خالی دامنوں میں دین کی دولت سمیت کر رخصت ہو جاتے۔ اللہ اپنے رازوں کو بہتر جانتا ہے۔ اگر خلجیوں اور ناصر االدین قباچہ کے درمیان ہنگامۂ کار زار برپا نہ ہوتا، تو حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ براہ راست ملتان تشریف لے جاتے اور غزنی کے باشندے ہدایت سے محروم رہ جاتے۔ قیام غزنی کے دوران ہزاروں بدکاروں، فاسقوں اور رہزنوں نے حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ کے دستِ حق پر توبہ کی اور بھٹکے ہوئے مسافر صراطِ مستقیم کی طرف لوٹ آئے۔ کچھ دن بعد معلوم ہوا کہ خلجیوں کو اس جنگ میں سخت ہزیمت اُٹھانی پڑی ہے۔ انجام کار وہ فرمانروائے ہند سلطان شمس الدین التمش سے مدد حاصل کرنے کے لئے دہلی کی طرف جا رہے تھے۔ مقامی باشندیوں نے حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ کو بتایا کہ سلطان شمس الدین التمش کی عسکری طاقت بہت زیاد ہے۔ دو سال پہلے غزنی کے حاکم تاج الدین یلدوز نے بھی التمش سے ٹکرانے کی کوشش کی تھی ،مگر اُسے بھی ذلت آمیز شکست سے دو چار ہونا پڑا تھا۔ اسی طرح ناصر الدین قباچہ سے بھی سلطان کے مراسم اچھے نہیں۔ نتیجتاً اس علاقے میں ایک خونریز جنگ ہوئی اور اس کے اثراتِ بدسرزمین ملتان پر بھی مرتب ہوں گے۔ چند ماہ بعد اطلاع ملی کہ فرمانروائے ہند سلطان شمس الدین التمش برق رفتاری کے ساتھ خلجیوں کی مدد کو آرہا ہے۔ حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ ملتان روانہ ہونے والے تھے۔ یہ خبر سن کر آپ نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا۔ سیاسی انتشار کے سبب مقامی لوگ بہت ہراساں تھے، جب انہیں کوئی جائے پناہ نظر نہیں آئی تھی تو وہ حضرت شیخ ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر دعائوں کی درخواست کرتے تھے۔ حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ پریشان حال لوگوں کی تالیفِ قلب فرماتے: تائید حق پر یقین رکھو۔ انشاء اللہ یہ طوفانِ بلا خیز بہت جلد گزر جائے گا اور مخلوقِ خدا کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔اور ایسا ہی ہوا۔ ٭٭٭
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
JazakAllah
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
حضرت مخدوم عبدالرشید حقانی (رح) سے متعلق مزید معلومات کہاں سے مل سکتی ہیں؟
JazakAllah
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks