SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 4 of 4

    Thread: حضرت ابو ایوب انصاریؓ

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      حضرت ابو ایوب انصاریؓ


      حضرت ابو ایوب انصاریؓ

      خالد محمد خالد

      ہجرت کے کامیاب سفر کا اختتام کرتے ہوئے آنحضرتؐ مدینہ مںل داخل ہو رہے تھے۔ وہ دار الہجرت مں مستقبل کے مبارک ایام کا آغاز کر رہے تھے۔ رسول اللہﷺ اس جمِ غفیر کی صفوں کے درمیان سے گزر رہے تھے جس کے دل جرأت، محبت اور خوشی سے جوش مار رہے تھے۔ آپؐ اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ ہر کوئی اونٹنی کی مہار تھامنے کے لیے ہجوم کیے ہوئے تھا کہ رسول اللہﷺ کی مہمان نوازی مںر کروں گا۔
      سواری بنی سالم بن عوف کے گھروں کے قریب سے گزری تو انھوں نے یہ کہتے ہوئے اونٹنی کی راہ روک لی کہ: یا رسول اللہﷺ ہمارے پاس قیام فرمائیے۔ ہم نفری والے بھی ہںو اور سازوسامان کے مالک بھی اور دفاع بھی کر سکتے ہںل۔
      بنی سالم بن عوف کے لوگ اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے تھے کہ رسول اللہﷺ نے انھںر جواب دیا: خلو سبیلھا، فانھا مامورۃ ’’اس کی راہ چھوڑ دو، یہ حکم کی پابند ہے۔‘‘
      اونٹنی بنی سالم بن عوف کے گھروں سے گزر کر بنی بیاضہ کے گھروں پھر بنی ساعدہ کے محلے پھر بنی حارث بن خزرج کے محلے پھر بنی عدی بن نجار کے محلوں اور ان تمام گھروں کے پاس سے گزر رہی تھی جو اس کی راہ مںا آ رہے تھے۔ ہر قبیلہ اونٹنی کا راستہ روک رہا تھا کہ رسول اللہﷺ ان کے گھروں مںر نزول فرما کر انھں سعادت بخشںت لیکن رسول اللہﷺ کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور آپؐ فرما رہے تھے: خلو سبیلھا، فانھا مامورۃ ’’اس کی راہ چھوڑ دو، یہ حکم کی پابند ہے۔‘‘
      نبی اکرمﷺ نے اپنے نزول کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ رکھا تھا کیونکہ عنقریب اس جائے نزول کو بہت بڑا اعزاز و اکرام ملنے والا تھا۔ اس جگہ وہ مسجد تعمیر ہونا تھی جس سے توحید کی صدائںن اور نور کی کرنںب پھوٹ پھوٹ کر چہار دانگِ عالم مںت پھیلنے والی تھںن۔ اس مسجد کے پہلو مں مٹی اور گارے کے وہ حجرے بھی تعمیر ہونا تھے جن کے اندر ’’گزارے‘‘ یا شاید ’’گزارے‘‘ سے بھی کم یعنی دنیاوی زندگی کا ’’ناگزیر‘‘ سامان بھی موجود نہ ہو۔
      دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ان کٹیاؤں مں انسانیت کے اس معلم اور رسولﷺ نے قیام پذیر ہونا تھا جو اس لیے مبعوث ہوئے تھے کہ زندگی کے جامد ہو چکے جسد مںت روح پھونکںھ اور شرف و عزت کا حق دار اُن لوگوں کو قرار دیں جو یہ کہںج کہ ’’اللہ ہمارا رب ہے‘‘ اور پھر اس پر ثابت قدم ہو جائںک، یعنی ’’وہ لوگ جو اپنے ایمانوں کو ظلم کے ساتھ نہںت ملاتے۔‘‘ ہاں وہ جنھوں نے دین کو اللہ کے لیے خالص کر لیا تھا۔ جی ہاں وہ خیرخواہ ِ انسانیت کو زمین مں اصلاح کرنا چاہتے تھے، فساد برپا نہںا کرنا چاہتے تھے۔
      رسول اللہﷺ نے اونٹنی کے ٹھہرنے کا معاملہ مکمل طور پر اس ذاتِ قدیر کے حوالے کر رکھا تھا جو آپؐ کی رہنمائی کر رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپؐ نے اونٹنی کی نکیل چھوڑ دی تھی۔ آپؐ اس کی نکیل کھینچ کر اس کا رخ کسی طرف موڑتے تھے نہ اس کے قدم روکتے۔ آپؐ کا قلبِ اطہر اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ تھا۔ آپؐ کی زبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے: اللھم خرلی و اخترلی ’’اے اللہ! میرے لیے انتخاب فرما اور بہترین انتخاب فرما۔‘‘
      بالآخر اونٹنی مالک بن نجار کے گھر کے سامنے آ کر بیٹھ گئی پھر اٹھ کھڑی ہوئی اور مکان کے گرد چکر لگایا۔ پھر اسی جگہ واپس آ گئی جہاں بیٹھی تھی اور پہلو زمین پر لگا دیا۔ پھر وہںب سکون سے بیٹھی رہی یہاں تک کہ رسول اللہﷺ خوش و خرم اس سے نیچے اتر آئے۔ اس موقع پر ایک مسلمان آگے بڑھتا ہے، اس کا چہرہ خوشی و سعادت سے چمک رہا ہے۔ وہ آگے بڑھتا ہے اور اونٹنی کا کجاوہ اٹھا کر اپنے گھر کے اندر لے جا کر رکھ دیتا ہے۔ پھر رسولِ رحمتﷺ سے درخواست کرتا ہے کہ آپؐ اس گھر مں قدم رنجہ فرمائںد۔ رسول اللہﷺ اپنا سعادت و برکت سے معمور دامن لے کر آدمی کے پیچھے پیچھے گھر مںل داخل ہو جاتے ہں ۔
      حضرات! کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ خوش نصیب مسلمان کو ن تھا جس کے گھر کے سامنے اونٹنی بیٹھی تھی اور رسول اللہﷺ اس آدمی کے مہمان بنے تھے اور تمام کے تمام اہلِ مدینہ اس آدمی کی بلند بختی و سعادت مندی کو رشک کی نظروں سے دیکھ رہے تھے؟ سنیے! یہ مسلمان، ہماری آج کی گفتگو کا عنوان ’’ابو ایوب انصاریؓ‘‘ یعنی مالک بن نجار کے پوتے ’’حضرت خالدؓ بن زید‘‘ ہںا۔
      ٭٭

      قارئین کرام! رسول اللہﷺ کے ساتھ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی یہ پہلی ملاقات نہںد تھی بلکہ اس سے قبل بیعت عقبۂ ثانیہ کے موقع پر جب اہلِ مدینہ کا ایک وفد مکہ مں رسول اللہﷺ سے بیعت کرنے کی غرض سے آیا تھا تو حضرت ابو ایوب انصاریؓ ان ستر مومنوں مں، سے ایک تھے جنھوں نے دستِ رسولﷺ مںس ہاتھ دے کر آپؐ کی مدد و نصرت کی پختہ قسمں کھائی تھںر۔
      اور اب جبکہ رسول اللہﷺ اپنے نزول و قیام سے مدینہ منورہ کو اعزاز بخش رہے تھے اور اسے اللہ کے دین کا مرکز بنا رہے تھے، مقدر نے جناب ابو ایوب انصاریؓ کے مکان اور گھر کو شرف بخشا کہ وہ سب سے پہلا گھر قرار پائے جہاں دنیا کے عظیم مہاجر اور کریم رسول جناب محمدﷺ آرام فرما ہوں۔ ابتدا مںت رسول اللہﷺ نے فیصلہ کام کہ آپؐ مکان کی پہلی منزل مںد ہی قیام فرمائںر گے مگر ہوا یوں کہ حضرت ابو ایوبؓ گھر کی بالائی منزل پر جانے کے لیے اوپر چڑھنے لگے تو کانپنا شروع ہو گئے۔
      ان کے لیے یہ تصور بھی محال ہو گیا کہ مںی حالتِ بیداری مںم یا حالتِ خواب مںہ رسول اللہﷺ سے اونچی منزل مں رہوں پھر جناب ابو ایوب انصاریؓ رسول اللہﷺ سے درخواست کرنے لگے کہ آپؐ بالائی منزل پر تشریف لے جائںر۔ رسول اللہﷺ نے ان کی درخواست قبول فرمائی اور بالائی منزل پر قیام پذیر ہو گئے کہ اب رسول اللہﷺ کو مسجد کی تعمیر اور حجروں کی تیاری تک یہاں قیام فرمانا تھا۔
      ٭٭

      قارئین کرام! آئیے آپ کو اس سہانے دور کا ایک یادگار واقعہ سنائںد جس کے اندر محبت کے جذبات بھی ہں اور حالات کی سختی کے نشتر بھی، تاہم یہ جناب ابو ایوب انصاریؓ کی سعادت و خوش بختی کی ایک دلآویز تصویر بھی ہے! حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہںا کہ ایک روز سخت دوپہر کے وقت جناب ابوبکرؓ مسجد کی طرف جا رہے تھے تو جناب عمرؓ نے آپؓ کو دیکھ کر پوچھا، ابوبکرؓ! اس وقت کس چیز نے تمھںع باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے؟
      جناب ابوبکرؓ نے کہا: مں بھوک کی شدت سے دوچار ہوں اس لیے باہر نکلا ہوں ! حضرت عمرؓ نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے بھی کسی اور چیز نے باہر نہںد نکالا، مںز بھی اسی وجہ سے باہر آیا ہوں۔ جناب صدیقؓ و فاروقؓ ابھی یہی گفتگو کر رہے تھے کہ رسول اللہﷺ بھی ان کے پاس آ نکلے اور پوچھا تمھں اس وقت کس چیز نے باہر نکالا ہے؟
      جناب ابوبکرؓ و عمرؓ نے بتایا کہ اس لیے باہر نکلے ہںی کہ بھوک کی شدت سے دوچار ہںل۔
      رسول اللہﷺ نے فرمایا! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ مں میری جان ہے۔ مجھے بھی اس کے علاوہ کسی اور چیز نے باہر نکلنے پر مجبور نہں کیا، آؤ میرے ساتھ چلو!
      پھر صدیقؓ و فاروقؓ اور سراپا رحمت رسولﷺ چلے اور جناب ابو ایوب انصاریؓ کے دروازے پر جا پہنچے۔ دراصل حضرت ابو ایوبؓ نے روزانہ رسول اللہﷺ کے لیے کھانا رکھا ہوتا تھا۔ جب آپؐ معمول کے وقت پر تشریف نہ لاتے، ابو ایوبؓ یہ کھانا اپنے اہل خانہ کو کھلا دیتے۔
      جناب ابو ایوبؓ کی اہلیہ محترمہ نے رسول اللہﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں کو دروازے پر دیکھا تو آپؐ کو خوش آمدید کہا، رسول اللہﷺ نے پوچھا ابو ایوبؓ کہاں ہںر ؟ ابو ایوبؓ اس وقت قریب ہی کھجوروں کے باغ مںہ کام کر رہے تھے۔ رسول اللہﷺ کی آواز سنتے ہی جلدی سے آ گئے اور آپؐ کو خوش آمدید کہا پھر ساتھ ہی عرض کیا: یا نبی اللہﷺ! یہ وہ وقت نہں ہے جس مںک آپؐ تشریف لایا کرتے ہںو یعنی جس وقت آپؐ کے لیے کھانا رکھا ہوتا ہے یہ وہ وقت نہںو۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: تو نے ٹھیک کہا۔ پھر جناب ابو ایوبؓ باغ مں گئے اور کھجور کی ایک گچھے دار شاخ کاٹ لائے۔
      رسول اللہﷺ نے دیکھا تو فرمایا میرا مقصد یہ نہںں تھا کہ تم شاخ ہی کاٹ کر لے آؤ، تم کھجوریں کیوں نہ توڑ لائے؟ حضرت ابو ایوبؓ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ مں نے چاہا کہ آپ اس سے تمر، رطب اور بُسر (پکی، کچی اور خشک) کھجوریں کھائںا، البتہ مںﷺ آپؐ کے لیے کچھ ذبح بھی کرتا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر ذبح ہی کرنا ہے تو کوئی دودھ دیتا جانور ذبح نہ کرنا۔ پھر ابو ایوبؓ نے بکری کا ایک بچہ ذبح کیا اور بیوی سے کہا کہ آٹا گوندھو اور روٹیاں پکاؤ۔ پھر خود آدھے گوشت کو لیا اور اس کو پکایا اور آدھے کو بھونا۔
      جب کھانا تیار ہو گیا اور نبیﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں کے سامنے رکھ دیا تو آپؐ نے ایک بوٹی لی اور اس کو ایک روٹی کے اندر رکھا اور فرمایا: یا ابا ایوب بادر بھذۃ القطعۃ الیٰ فاطمۃ فانھا لم تصب مثل ھذا منذ ایام ’’ابو ایوبؓ یہ بوٹی جلدی سے فاطمہ کو دے آؤ، اس کو کئی دنوں سے ایسی کوئی چیز میسر نہں آئی۔‘‘ پھر رسول اللہﷺ اور آپؐ کے ساتھی کھانا کھا چکے تو آپؐ نے فرمایا: خبز و لحم و تمر و بسرور طب!! ’’روٹی اور گوشت، پکی، خشک اور تر کھجوریں !!‘‘ ساتھ ہی نبیﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور آپؐ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے:
      ’’ولاذی نفسی بیدہ ان ھذا ھو النعیم الذی تسالون عنہ یوم القیامۃ فاذا اصبتم مثل ھذا فضربتم بایدیکم فیہ فقولو۱: بسم اللہ فاذا شبعتم فقولوا: الحمد اللہ الذی ھو اشبعنا و انعم علینا فافضل‘‘
      ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ مںن میری جان ہے! یہ وہ نعمت ہے جس کے بارے مںش قیامت کے روز تم سے پوچھا جائے گا۔ جب تمھںت ایسی نعمت میسر آئے اور تم اس پر ہاتھ ڈالنے لگو تو بسم اللہ پڑھ لیا کرو اور جب شکم سیر ہو جاؤ تو پڑھا کرو الحمد اللہ الذی ھو اشبعنا و انعم علینا فافضل ’’تعریفوں کا حق دار وہی ہے جس نے ہمںے شکم سیر کیا اور ہمارے اوپر اپنی نعمت فرمائی تو بہترین نعمت فرمائی!‘‘
      پھر رسول اللہﷺ اٹھے اور جاتے ہوئے حضرت ابو ایوبؓ سے فرمایا، کل ہمارے پاس آنا۔ دراصل رسول اللہﷺ کے ساتھ اگر کوئی آدمی بھلائی کرتا تو آپؐ اس کو بہترین بدلہ دینا پسند کیا کرتے تھے۔ دوسرے روز جناب ابو ایوبؓ نبیﷺ کی خدمت مںر حاضر ہوئے تو نبیﷺ نے اپنی ایک کنیز جو آپؐ کی خدمت کرتی تھی، حضرت ابو ایوبؓ کو عنایت کر دی اور فرمایا: ’’ابو ایوبؓ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، یہ جب تک ہمارے پاس رہی ہے ہم نے اس کے اندر خیر ہی دیکھی۔‘‘
      جناب ابو ایوبؓ کنیز کو لے کر گھر پہنچے تو ام ایوب نے دیکھ کر پوچھا، ابو ایوب یہ کس کی کنیز ہے؟ آپؓ نے کہا! یہ رسول اللہﷺ نے ہمںس تحفہ دی ہے۔ ام ایوب نے کہا: دینے والا کس قدر عظیم ہے اور دی گئی چیز کس قدر معزز ہے!! پھر جناب ابو ایوبؓ نے کہا، رسول اللہﷺ نے نصتحک کی ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ اُم ایوبؓ نے کہا تو پھر رسول اللہﷺ کی نصیحت پر عمل کیے بغیر ہم کیسے رہ سکتے ہںب ؟ حضرت ابو ایوبؓ نے کہا: مںر اس نصیحت پر عمل کرنے کا بہتر طریقہ اس کے سوا اور کوئی نہںک سمجھتا کہ اسے آزاد کر دوں ! پھر آپؓ نے اس کنیز کو آزاد کر دیا۔
      ٭٭

      جب سے کفارِ مکہ اسلام کے خلاف سازشں۔ کرنا، دار الہجرت مدینہ منورہ پر چڑھائی کے پروگرام بنانا اور قبائل اکٹھے ہونا شروع ہوئے تھے کہ اللہ کے نور کو گل کر دیں، بالکل اسی وقت سے حضرت ابو ایوبؓنے جہاد فی سبیل اللہ کو بطور پیشہ اختیار کر لیا۔ بدر ہو یا اُحد، خندق ہو یا کوئی اور غزوہ و مشہد، ہر ایک مں اس بہادر نے اپنا جان و مال اللہ رب العلمین کے حضور فروخت کر دیا۔ وفاتِ رسولﷺ کے بعد بھی وہ کسی ایسے معرکے سے پیچھے نہںا رہے جس مںع مسلمانوں کی شرکت لازمی قرار دی گئی ہو خواہ یہ معرکہ کتنا ہی سخت کیوں نہ ہو! انفرو اخفافا و ثقالا ’’نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل!‘‘ جناب ابو ایوب انصاریؓ کا شعار تھا جس کو وہ دن رات اور چھپے کھلے ہر حال مںو گنگناتے تھے۔
      ایک بار آپؓ اس لشکر مںہ شرکت سے رہ گئے جس کا امیر خلیفۂ وقت نے ایک نوجوان مسلمان کو بنا دیا تھا اور آپؓ اس نوجوان کی امارت پر راضی نہ تھے۔ صرف اس ایک بار۔۔۔اس کے علاوہ اور کبھی نہںو ! وہ اس لشکر جہاد مںر شرکت نہ کر سکے اور اس عدم شرکت کے اپنے موقف پر اظہارِ ندامت سے ان کا دل مسلسل مضطرب رہتا۔ فرماتے:
      ما علی من استعمل علی ’’جو میرے اوپر ذمہ دار بنایا گیا، اس کی جواب دہی میری ذمہ داری نہںن ہے۔‘‘
      یعنی مجھے تو جہاد مںر شریک ہو کر اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے تھی۔ اس ایک مرتبہ کے بعد وہ کبھی جہاد و قتال سے غیر حاضر نہ رہے! ان کے لیے بس یہی سب کچھ تھا کہ وہ ایک سپاہی کی حیثیت سے لشکرِاسلام مں زندہ رہںغ، اس کے پرچم تلے لڑتے رہںق، اس کی حرمت کا دفاع کرتے رہںی اور اس کی پاسبانی کا حق ادا کرتے رہںم۔ جب حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان اختلاف رونما ہوا تو آپؓ کسی تردد کے بغیر قافلۂ علیؓ مں شریک ہو گئے۔ جب جناب علیؓ شہید کر دیے گئے اور خلافت کا سارا معاملہ حضرت معاویہؓ کے ہاتھ مںک چلا گیا تو آپؓ دل مںی کوئی خیال لائے بغیر پاک دل و پاکباز انداز مںا اس طرح مجاہدین کی صفوں مںس جا شامل ہوئے کہ انھںی دنیا مں کسی چیز کی کوئی خواہش و تمنا نہ تھی سوائے اس کے کہ شہیدانِ جہاد مںر ان کو جگہ ملے۔
      وہ جونہی لشکر اسلام کو قسطنطنیہ کی طرف حرکت کرتا دیکھتے ہںد تو تلوار اٹھاتے ہںک، گھوڑے پر سوار ہوتے ہںک اور اس شہادت کی تمنا مںر نکل کھڑے ہوتے ہںک جس کا مدتِ مدید سے انھں، شوق تھا۔ اس معرکہ مں، انھںر کاری زخم آئے۔ حضرت معاویہؓ کا بیٹا یزید لشکر کا کمانڈر تھا، وہ عیادت کے لیے آیا تو اس وقت آپؓکے سانس اللہ سے ملاقات کی تیاری مں تھے۔
      یزید نے پوچھا:’’جناب ابو ایوبؓ ! آپ کی کوئی ضرورت؟‘‘ قارئین کرام جناب ابو ایوبؓ نے اس موقع پر اپنی جو ضرورت بیان کی، ذرا غور کیجیے کہ کیا ہم مںو سے کوئی اس ضرورت کو اپنے تخیل و تصور مںک لا سکتا ہے؟ ہرگز نہںر، ہم مں، سے کوئی اس بلند خیالی اور دور اندیشی تک ہرگز نہںے پہنچ سکتا۔ کیونکہ ان کی اس وقت کی ضرورت جبکہ ان کی روح پرواز کر رہی تھی، ایک ایسی شے تھی جو بنی نوعِ انسان کے تصور و تخیل کو عاجز کر کے رکھ دے!
      جان کنی کے لمحات مںی جناب ابو ایوب انصاریؓ نے یزید سے مطالبہ کیا کہ جب مںل موت کی آغوش مں چلا جاؤں تو میری میت کو میرے گھوڑے پر لاد لیا جائے پھر اس گھوڑے کو دشمن کی زمین مں جس قدر ممکن ہو سکے طویل ترین مسافت تک دوڑایا جائے اور وہاں لے جا کر دفن کیا جائے پھر کمانڈر اپنا لشکر لے کر اس راہ پر چلتا ہوا دشمن پر لشکر کشی کرے یہاں تک کہ مسلمان لشکر کے گھوڑوں کے قدموں کی چاپ مجھے میری قبر مںن سنائی دے! اس وقت کمانڈر سمجھ لے کہ مسلمانوں نے اس فوز و نصرت کو پا لیا ہے جس کی تلاش مںا وہ نکلے تھے! قارئین کرام! کیا آپ اسے شاعرانہ تصور سمجھتے ہںن ؟
      نہیں۔۔۔نہںن ! یہ محض خیال اور تصور نہںد ہے بلکہ دنیا پر رونما ہونے والا ایک حقیقی واقعہ ہے جس کا دنیا نے مشاہدہ کیا اور اپنی نگاہںس اور سماعتںل اسی واقعہ پر مرکوز کر رکھی تھںر کہ انھںق اس بات پر یقین نہںڈ آ رہا تھا جو ان کی آنکھں دیکھ اور کان سن رہے تھے! یزید بن معاویہ نے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی وصیت پر عمل کیا اور قسطنطنیہ جسے آج کی دنیا ’’استنبول‘‘ کے نام سے جانتی ہے، اس کے قلب مںی اس عظیم آدمی کی میت کو دفن کیا! جب اسلام نے اس بقعۂ زمین کو اپنی روشنی سے منور نہںن کیا تھا تب بھی روم کے اہل قسطنطنیہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو قبر کے اندر ہونے کے باوجود پاکباز تصور کرتے تھے۔
      اس وقت تو آپ اور زیادہ حیران ہو جائںت گے جب ان واقعات کو قلمبند کرنے والے مؤرخین کو یہ کہتے ہوئے سنںا گے کہ ’’اہل روم حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر کو بڑی اہمیت دیتے تھے، قبر کی زیارت کے لیے جاتے اور جب قحط سے دوچار ہوتے تو اس کے ذریعے بارش کی دعا کرتے!‘‘
      ٭٭

      حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی زندگی نے انھںج معرکوں مںر مشغول رکھا اور تلوار کندھے سے اتار کر ذرا آرام کرنے کی مہلت نہ دی۔ معرکہ آرائی کی اس بھرپور زندگی کے علاوہ ان کی بقیہ زندگی نسیم فجر کی مانند نہایت پرسکون اور رواں دواں تھی۔ اس لیے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ سے ایک حدیث مبارک سماعت کی پھر اس کو ازبر کر لیا کہ:
      اذا صلیت فصل صلاۃ مودع
      ولا تکلمن بکلام تعتذر منہ
      والزم الیاس مما فی ایدی الناس
      ’’جب تم نماز پڑھو تو دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے آدمی کی مانند نماز پڑھو اور کوئی ایسی بات مت کہو جس پر بعد مں معذرت کرنا پڑے جو کچھ لوگوں کے ہاتھوں مںت ہے، اس سے مکمل طور پر مایوس رہو!‘‘
      شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنی زبان کو کسی فتنہ مں ملوث اور اپنے دل کو کسی حرص و آزد کی طرف مائل نہ ہونے دیا۔ زندگی عابدوں کے سے شوق اور قریب المرگ لوگوں کی سی بے نیازی مں بسر کی اور جب ان کی موت آئی تو دنیا کے طول و عرض مںش اس کے سوا کوئی خواہش نہ تھی کہ میری میت کو روم کی بید ترین سرزمین پر لے جانا اور وہاں دفن کرنا! آج آپؓ وہںی آرام فرما ہںئ اور فضا مںس مسجدوں کے بلند میناروں سے اذان کی بہار آفریں آوازیں سنتے ہں کہ: ’’اللہ بہت ہی بڑا ہے۔‘‘ ’’اللہ بہت ہی بڑا ہے۔‘‘ آپ کی روح یہ حسین کلمات سن کر اپنے جنتی گھر اور بلند و بالا محل مں یہ جواب دیتی ہو گی: ھذا ما وعدنا اللہ وہ رسولہ ’’یہ ہے وہ چیز جس کا اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا۔‘‘
      ٭٭٭
      @CaLmInG MeLoDy; @Raja Pakistani @Arosa Hya @Amna Rani



      Similar Threads:

    2. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Dr Danish (03-21-2017)

    3. #2
      Family Member www.urdutehzeb.com/public_htmlClick image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 Forum Guru's Avatar
      Join Date
      Sep 2014
      Location
      Pakistan
      Posts
      1,069
      Threads
      232
      Thanks
      0
      Thanked 34 Times in 30 Posts
      Mentioned
      43 Post(s)
      Tagged
      2895 Thread(s)
      Rep Power
      81

      Re: حضرت ابو ایوب انصاریؓ

      Walikum As Salam
      Usefull Thread Jazak ALLAH Khair





    4. #3
      ...."I don't need your attitude. I've my own"..... www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Arosa Hya's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Location
      Peace
      Posts
      5,286
      Threads
      972
      Thanks
      973
      Thanked 827 Times in 507 Posts
      Mentioned
      518 Post(s)
      Tagged
      6978 Thread(s)
      Rep Power
      242

      Re: حضرت ابو ایوب انصاریؓ

      jazakALLAH
      Great job


    5. #4
      Star Member www.urdutehzeb.com/public_html Dr Danish's Avatar
      Join Date
      Aug 2015
      Posts
      3,237
      Threads
      0
      Thanks
      211
      Thanked 657 Times in 407 Posts
      Mentioned
      28 Post(s)
      Tagged
      1020 Thread(s)
      Rep Power
      510

      Re: حضرت ابو ایوب انصاریؓ

      Subhan Allah
      Nice Sharing
      Jazak Allah



    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •