سنو کہ بول رہا ہے وہ سر اتارا ہوا

ہمارا مرنا بھی جینے کا استعارہ ہوا

یہ سرخ پھول سا کیا کھل رہا ہے نیزے پر
یہ کیا پرندہ ہے شاخِ شجر پہ وارا ہوا

چراغِ دشت بجھا اور ملا اشارۂ غیب
کہ آسمان پہ ظاہر کوئی ستارہ ہوا

کبھی مرا چمنِ درد سوکھتا ہی نہیں
رِدا ہٹی تو وہی زخم آشکارا ہوا

****



Similar Threads: