Nice
نفسیات حاکمی
(اصلاحات)
یہ مہر ہے بے مہری صیاد کا پردہ
آئی نہ مرے کام مری تازہ صفیری
رکھنے لگا مرجھائے ہوئے پھول قفس میں
شاید کہ اسیروں کو گوارا ہو اسیری
محراب گل افغان کے افکار
(1)
میرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں
تیری چٹانوں میں ہے میرے اب و جد کی خاک
روز ازل سے ہے تو منزل شاہین و چرغ
لالہ و گل سے تہی ، نغمۂ بلبل سے پاک
تیرے خم و پیچ میں میری بہشت بریں
خاک تری عنبریں ، آب ترا تاب ناک
باز نہ ہوگا کبھی بندۂ کبک و حمام
حفظ بدن کے لیے روح کو کر دوں ہلاک!
اے مرے فقر غیور ! فیصلہ تیرا ہے کیا
خلعت انگریز یا پیرہن چاک چاک!
(2)
حقیقت ازلی ہے رقابت اقوام
نگاہ پیر فلک میں نہ میں عزیز ، نہ تو
خودی میں ڈوب ، زمانے سے نا امید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمام رفو
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اتر گیا جو ترے دل میں 'لاشریک لہ'
(3)
تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے
وہی شراب ، وہی ہاے و ہو رہے باقی
طریق ساقی و رسم کدو بدل جائے
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے!
(4)
کیا چرخ کج رو ، کیا مہر ، کیا ماہ
سب راہرو ہیں واماندۂ راہ
کڑکا سکندر بجلی کی مانند
تجھ کو خبر ہے اے مرگ ناگاہ
نادر نے لوٹی دلی کی دولت
اک ضرب شمشیر ، افسانۂ کوتاہ
افغان باقی ، کہسار باقی
الحکم للہ ! الملک للہ !
حاجت سے مجبور مردان آزاد
کرتی ہے حاجت شیروں کو روباہ
محرم خودی سے جس دم ہوا فقر
تو بھی شہنشاہ ، میں بھی شہنشاہ!
قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ
(5)
یہ مدرسہ یہ کھیل یہ غوغائے روارو
اس عیش فراواں میں ہے ہر لحظہ غم نو
وہ علم نہیں ، زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کف جو
ناداں ! ادب و فلسفہ کچھ چیز نہیں ہے
اسباب ہنر کے لیے لازم ہے تگ و دو
فطرت کے نوامیس پہ غالب ہے ہنر مند
شام اس کی ہے مانند سحر صاحب پرتو
وہ صاحب فن چاہے تو فن کی برکت سے
ٹپکے بدن مہر سے شبنم کی طرح ضو!
(6)
جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک!
ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ
(7)
رومی بدلے ، شامی بدلے، بدلا ہندستان
تو بھی اے فرزند کہستاں! اپنی خودی پہچان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان!
موسم اچھا ، پانی وافر ، مٹی بھی زرخیز
جس نے اپنا کھیت نہ سینچا ، وہ کیسا دہقان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان!
اونچی جس کی لہر نہیں ہے ، وہ کیسا دریا
جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں ، وہ کیسا طوفان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان!
ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ
اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان!
تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج
عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان!
(8)
زاغ کہتا ہے نہایت بدنما ہیں تیرے پر
شپرک کہتی ہے تجھ کو کور چشم و بے ہنر
لیکن اے شہباز! یہ مرغان صحرا کے اچھوت
ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر
ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام
روح ہے جس کی دم پرواز سر تا پا نظر!
(9)
عشق طینت میں فرومایہ نہیں مثل ہوس
پر شہباز سے ممکن نہیں پرواز مگس
یوں بھی دستور گلستاں کو بدل سکتے ہیں
کہ نشیمن ہو عنادل پہ گراں مثل قفس
سفر آمادہ نہیں منتظر بانگ رحیل
ہے کہاں قافلۂ موج کو پروائے جرس!
گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے
مردہ ہے ، مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس
پرورش دل کی اگر مد نظر ہے تجھ کو
مرد مومن کی نگاہ غلط انداز ہے بس!
(10)
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ، ضرب ہے کاری
اگر ہو جنگ تو شیران غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاری
عجب نہیں ہے اگر اس کا سوز ہے ہمہ سوز
کہ نیستاں کے لیے بس ہے ایک چنگاری
خدا نے اس کو دیا ہے شکوہ سلطانی
کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کراری
نگاہ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو
یہ بے کلاہ ہے سرمایۂ کلہ داری
(11)
جس کے پرتو سے منور رہی تیری شب دوش
پھر بھی ہو سکتا ہے روشن وہ چراغ خاموش
مرد بے حوصلہ کرتا ہے زمانے کا گلہ
بندۂ حر کے لیے نشتر تقدیر ہے نوش
نہیں ہنگامہ پیکار کے لائق وہ جواں
جو ہوا نالۂ مرغان سحر سے مدہوش
مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری
اور عیار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش!
(12)
لا دینی و لاطینی ، کس پیچ میں الجھا تو
دارو ہے ضعیفوں کا 'لاغالب الا ھو'
صیاد معانی کو یورپ سے ہے نومیدی
دلکش ہے فضا ، لیکن بے نافہ تمام آہو
بے اشک سحر گاہی تقویم خودی مشکل
یہ لالۂ پیکانی خوشتر ہے کنار جو
صیاد ہے کافر کا ، نخچیر ہے مومن کا
یہ دیر کہن یعنی بتخانۂ رنگ و بو
اے شیخ ، امیروں کو مسجد سے نکلوا دے
ہے ان کی نمازوں سے محراب ترش ابرو
(13)
مجھ کو تو یہ دنیا نظر آتی ہے دگرگوں
معلوم نہیں دیکھتی ہے تیری نظر کیا
ہر سینے میں اک صبح قیامت ہے نمودار
افکار جوانوں کے ہوئے زیر و زبر کیا
کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی
اے پیر حرم تیری مناجات سحر کیا
ممکن نہیں تخلیق خودی خانقہوں سے
اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا!
(14)
بے جرأت رندانہ ہر عشق ہے روباہی
بازو ہے قوی جس کا ، وہ عشق ید اللہی
جو سختی منزل کو سامان سفر سمجھے
اے وائے تن آسانی ! ناپید ہے وہ راہی
وحشت نہ سمجھ اس کو اے مردک میدانی!
کہسار کی خلوت ہے تعلیم خود آگاہی
دنیا ہے روایاتی ، عقبی ہے مناجاتی
در باز دو عالم را ، این است شہنشاہی!
(15)
آدم کا ضمیر اس کی حقیقت پہ ہے شاہد
مشکل نہیں اے سالک رہ ! علم فقیری
فولاد کہاں رہتا ہے شمشیر کے لائق
پیدا ہو اگر اس کی طبیعت میں حریری
خود دار نہ ہو فقر تو ہے قہر الہی
ہو صاحب غیرت تو ہے تمہید امیری
افرنگ ز خود بے خبرت کرد وگرنہ
اے بندۂ مومن ! تو بشیری ، تو نذیری!
(16)
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے ، خدائی!
جو فقر ہوا تلخی دوراں کا گلہ مند
اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
اس دور میں بھی مرد خدا کو ہے میسر
جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائی
در معرکہ بے سوز تو ذوقے نتواں یافت
اے بندۂ مومن تو کجائی ، تو کجائی
خورشید ! سرا پردۂ مشرق سے نکل کر
پہنا مرے کہسار کو ملبوس حنائی
(17)
آگ اس کی پھونک دیتی ہے برنا و پیر کو
لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحب یقیں
ہوتا ہے کوہ و دشت میں پیدا کبھی کبھی
وہ مرد جس کا فقر خزف کو کرے نگیں
تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامۂ حق نے تری جبیں
یہ نیلگوں فضا جسے کہتے ہیں آسماں
ہمت ہو پر کشا تو حقیقت میں کچھ نہیں
بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں
زیر پر آگیا تو یہی آسماں ، زمیں!
(18)
یہ نکتہ خوب کہا شیر شاہ سوری نے
کہ امتیاز قبائل تمام تر خواری
عزیز ہے انھیں نام وزیری و محسود
ابھی یہ خلعت افغانیت سے ہیں عاری
ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی
کہ ہر قبیلہ ہے اپنے بتوں کا زناری
وہی حرم ہے ، وہی اعتبار لات و منات
خدا نصیب کرے تجھ کو ضربت کاری!
(19)
نگاہ وہ نہیں جو سرخ و زرد پہچانے
نگاہ وہ ہے کہ محتاج مہر و ماہ نہیں
فرنگ سے بہت آگے ہے منزل مومن
قدم اٹھا! یہ مقام انتہائے راہ نہیں
کھلے ہیں سب کے لیے غریبوں کے میخانے
علوم تازہ کی سرمستیاں گناہ نہیں
اسی سرور میں پوشیدہ موت بھی ہے تری
ترے بدن میں اگر سوز 'لا الہ' نہیں
سنیں گے میری صدا خانزاد گان کبیر؟
گلیم پوش ہوں میں صاحب کلاہ نہیں!
(20)
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مرد کہستانی
دنیا میں محاسب ہے تہذیب فسوں گر کا
ہے اس کی فقیری میں سرمایۂ سلطانی
یہ حسن و لطافت کیوں ؟ وہ قوت و شوکت کیوں
بلبل چمنستانی ، شہباز بیابانی!
اے شیخ ! بہت اچھی مکتب کی فضا ، لیکن
بنتی ہے بیاباں میں فاروقی و سلمانی
صدیوں میں کہیں پیدا ہوتا ہے حریف اس کا
تلوار ہے تیزی میں صہبائے مسلمانی
Similar Threads:
Nice
Bohat Khoob
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks