ایک نوجوان کے نام
ترے صوفے ہیں افرنگی ، ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا ، شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زور حیدری تجھ میں ، نہ استغنائے سلمانی
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید ، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے ، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote




Bookmarks