Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
کبھی سو چا خُدا کے سامنے اک روز جانا ہے
ترا مذہب غزل ہے اور غزل میں بت پرستی ہے
محلوں میں ہم نے کتنے ستارے سجا دیئے
لیکن زمیں سے چاند بہت دور ہو گیا
تنہائیوں نے توڑ دی ہم دونوں کی اَنا!
آئینہ بات کرنے پہ مجبور ہو گیا
دادی سے کہنا اس کی کہانی سنائے وہ
جو بادشاہ عشق میں مزدور ہو گیا
کوئ ہاتھ بھی نہ ملائے گا، جو گلے مِلو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو
کوئی پھُول سا ہاتھ کاندھے پہ تھا
میرے پاؤں شعلوں میں جلتے رہے
شہرت کی بُلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو، وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
کبھی بولو تو شہروں کے مکاں بھی بات کرتے ہیں
تمہارے ذہن میں تو صرف قصبے کی حویلی ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks