Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
جہاں کی بھیڑ میں جو بھی ملا ، ملا تنہا
سفر میں ساتھ تھے سب پر ہر ایک تھا تنہا
سبھی تھے اپنے جو بیٹھے تھے گھیر کر مجھ کو
کوئی نہ ساتھ ہوا اٹھ کے جب چلا تنہا
ہے جسم سے جسم کا سخن کیا
یہ بزم کبھی سجا کے دیکھو
طُرفہ ہے بہت نگاہِ ماجدؔ
یہ شاخ کبھی ہلا کے دیکھو
یہ دشتِ دید ترستا ہے کیوں نظر کو تری
بہ قیدِ چشم ہیں کیوں کر ابھی غزال ترے
اُسی سے رقص میں ہے شاخِ آرزوئے وصال
ہیں جس ہوا سے شگفتہ یہ ماہ و سال ترے
ویرانیِ دل پر کبھی اتنا تو کرم کر
اِس راہگزر سے نمِ موسم سا گُزر جا
پیراک ہوں بحرِ لطفِ جاں کا
ہاں ہاں مجھے آزما کے دیکھو
گمان، برگ و ثمر پر ترا ہی صبح و مسا
خطوطِ حُسن ہویدا ہیں، ڈال ڈال ترے
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks