Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
آدم زاد ہوں میں، مردُودِ خدا بھی ہوں
کھو کر خود فردوسِ سکوں، پچتانا کیا
وہ لاوا جو سِلے ہونٹوں کے پیچھے
دہکتا ہے سُنائی دے رہا ہے
کہوں جو بات وہ جھومر، جبینِ وقت کا ہو
جو حق سرا ہو، وہ منصور سی زباں دے دے
جیون رُت کی سختی بے موسم لگتی ہے
کام بہت سارے ہیں، فرصت کم لگتی ہے
بَیری رات کے آخر میں جو جا کے بہم ہو
آنکھ کنارے اٹکی وہ شبنم لگتی ہے
خاک اچھال بھی دے تو دُور خلا میں ، تنبو تانیں گے
شاخِ شجر سے ٹوٹ گریں گے ،ہار نہ لیکن مانیں گے
دھُوپ کے تِیر ہوں یا، صحرائی ریت کی قاتل کنکریاں
جیتے جی جو تن پر برسا اُسے پھُہار ہی جانیں گے
دیکھ چکے ہم سا دہ مزاجی آدم کی ، لیکن اب تو
اوّل دن سے جو بھی ملا شیطان اُسے پہچانیں گے
خون میں برپا اِک محشر سا ہر پل لگتا ہے
پُوری عمر کی دُوری پر آتا کل لگتا ہے
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks