Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
اشکوں سے کب دھُلی ہے سیاہی نصیب کی
تسخیر جگنوؤں سے ہوئی کب سیاہ رات
ہوئی ہے خَیر سے جِن مدّتوں سے، حرف بہ دوش
ہوا کے پاس ہیں کیا کیا نہ اضطراب نئے
نام پر اپنے بگولے یا بھنور کی شکل میں
آئے گا اب کے بھی کوئی تحفۂ شر آئے گا
سلطنت میں جو بھی رنجیدہ ہو اُس کے رنج کا
دوش ماجدؔ کس شہِ بد نظم کے سر آئے گا
جہاں جس کی دُہائی دے رہا ہے
خدا اُس کو خدائی دے رہا ہے
پڑی زد جرم کی جس پر وہ چُپ ہے
جو مجرم ہے صفائی دے رہا ہے
بگولہ گھیر کر ہر ذِی طلب کو
ثمر تک نارسائی دے رہا ہے
بگولہ گھیر کر ہر ذِی طلب کو
ثمر تک نارسائی دے رہا ہے
وہی ہے جبرِ زماں، خود فریبیاں بھی وہی
سفید بال ہمارے وہی، خضاب وہی
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks