دن کٹا جائے اب رات کدھر کاٹنے کو
جب سے وہ گھر میں نہیں، دوڑے ہے گھر کاٹنے کو
ہائے صیاد تو آیا مرے پر کاٹنے کو
میں تو خوش تھا کہ چھری لایا ہے سر کاٹنے کو
اپنے عاشق کو نہ کھلواؤ کنی ہیرے کی
اُس کے آنسو ہی کفایت ہیں جگر کاٹنے کو
دانت انجم سے نکالے ہوئے تجھ بن مجھ پر
منہ فلک کھولے ہے اے رشکِ قمر کاٹنے کو
وہ شجر ہوں نہ گل و بار ، نہ سایہ مجھ میں
باغباں نے ہے لگا رکھا مگر کاٹنے کو
سر و گردن جگر و دل ہیں یہ چاروں حاضر
چاہے دل یار کو جو رنگ اگر کاٹنے کو
شام ہی سے دلِ بیتاب کا ہے ذوق یہ حال
ہے ابھی رات پڑی ، چار پہر کاٹنے کو
٭٭٭
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote


Bookmarks