کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد
سینے میں ہوگی سانس اڑی دو گھڑی کے بعد
کیا روکا اپنے گریے کو ہم نے کہ لگ گئی
پھر وہ ہی آنسوؤں کی جھڑی دو گھڑی کے بعد
کوئی گھڑی اگر وہ ملائم ہوئے تو کیا
کہہ بیٹھیں گے پھر ایک کڑی دو گھڑی کے بعد
کل اُس سے ہم نے ترکِ ملاقات کی، تو کیا؟
پھر اُس بغیر کل نہ پڑی دو گھڑی کے بعد
پروانہ گرد شمع کے شب دو گھڑی رہا
پھر دیکھی اُسکی خاک پڑی دو گھڑی کے بعد
کیا جانے دو گھڑی وہ رہے ذوق کس طرح
پھر تو نہ ٹھہرے پاؤں گھڑی دو گھڑی کے بعد
٭٭٭
Similar Threads:
Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
Nikita Khurshchev
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks