کیوں نہ ہم اس کو اسی کا آئینہ ہو کر ملیں
بے وفا ہے و ہ تو اس کو بے وفا ہو کر ملیں
تلخیوں میں ڈھل نہ جائیں وصل کی اکتاہٹیں
تھک گئے ہو تو چلو پھر سے جدا ہو کر ملیں
پہلی پہلی قربتوں کی پھر اٹھائیں لذتیں
آشنا آ پھر ذرا نا آشنا ہو کر ملیں
ایک تو ہے سر سے پا تک سراپا انکسار
لوگ و ہ بھی ہیں جو بندوں سے خدا ہو کر ملیں
معذرت بن کر بھی اس کو مل ہی سکتے ہیں عدؔیم
یہ ضروری تو نہیں اس کو سزا ہو کر ملیں
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks