دیکھ سکتے ہو تو دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔





دیکھ سکتے ہو تو دیکھو غور سے
ویرانیاں تاریخ کی ۔۔۔۔۔۔۔

مقدونیہ کی سمت جاتے راستوں پر دھول اڑتی ہے
مقدر کے سکندر جا چکے ہیں
قونیہ کی میخ کے چاروں طرف کنڈل بنائے
گھومتے قدموں کی چاپیں
اب کسی بے وقت لمحے کی صدائے جاں گزا ہیں
اب کسی درویش کی ایڑی میں دم باقی نہیں
روشن لکیریں بجھ چکی ہیں
محو ہوتے جا رہے ہیں
رقص کے سب سلسلے
بغداد پر چیلیں جھپٹتی ہیں
دمشقی دھات کے
پھل دار ہتھیاروں کی دھاریں کند ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

دیکھ سکتے ہو تو دیکھو
اب تمھارے خواب کی گہرائیوں میں
دل دھڑکنے کے بجائے
بس بھری آنکھوں کے جنگل پھیلتے جاتے ہیں
کورنتھی ستونوں سے بنی کہنہ عمارت میں
نئی دنیا کے دھاری دار سانپوں کا بسیرا ہے
طلسمی غار میں
خفیہ خزانے کے پرانے آہنی صندوقچوں میں
سرخ سکوں کی جگہ ڈالر بھرے ہیں
دیکھ سکتے ہو تو دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔



Similar Threads: