آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوے دل
راکھ ہو جائیں ،کوئ اور تمنا نہ کریں
چاکِ وعدہ نہ سلے،زخمِ تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے ،شمع کی لو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آ کر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئ امید تو آنکھیں چھن جائیں
اُس ملاقات کا اس بار کوئ وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جُنوں کا نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدیدِ وفا کا نہ شکایات کا وقت
لُٹ گئ شہرِ حوادث میں متاعِ الفاظ
اب جو کہنا ہو تو کیسے کوئ نوحہ کہیے
آج تک تم سے رگِ جاں کا کئ رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارضِ و رُخسار ملو
ماتمی ہیں دَمِ رخصت در و دیوار ملو
پھر نہ ہم ہوں گے ،نہ اقرار،نہ انکار،ملو
آخری بار ملو۔
٭٭٭
Similar Threads:
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks