SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: نوروز

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      نوروز


      نوروز



      شام کی مانگ سے افشاں کی لکیریں پھوٹیں
      جشنِ نوروز میں دھرتی کے دریچے جاگے

      سرخیاں چونک اُٹھیں ، تیرگیاں ڈوب گئیں
      تم بھی جاگو کہ یہ اعلانِ سحر خواب نہیں


      درد کا بوجھ بھی تھا ، بارشِ الزام بھی تھی
      میرے دکھ درد کی ساتھی مری خوشیوں کی شریک
      جُرعۂ شہر میں کچھ تلخی ایّام بھی تھی
      پھر بھی ہم لوگ سویرے کی تمنّا لے کر
      رات سے تلخی ایّام سے لڑتے ہی رہے
      یوں تو اب بھی ہیں پر اسرار تمہاری آنکھیں
      اب سے پہلے مگر ان آنکھوں میں ہیجان بھی تھا
      ساز کی لہر بھی تھی ، سوز کا طُوفان بھی تھا
      اب مگر جھومتی گاتی ہوئی آنکھوں کا نصیب
      ساز کی لہر تو ہے سوز کا طوفان نہیں
      ریشمی ڈورے لچکتے ہیں بکھر جاتے ہیں
      نیم خوابیدہ اُداسی ہے صبُحی پہ مُحیط
      اوس کا ذائقہ ہونٹوں پہ جما جاتا ہے
      تشنگی اوس کے قطروں سے نہیں بجھ سکتی
      جاگ بھی جاؤ کہ یہ نیم نگاہی بے سود
      جاگ بھی جاؤ کہ سوتے ہوئے ہونٹوں پہ مجھے
      جانے کیوں موت کا رہ رہ کہ خیال آتا ہے
      ابدیت کے کئی راز بہت یکساں ہیں
      حسن اور موت کے انداز بہت یکساں ہیں
      جاگ بھی جاؤ کہ انسان کی قسمت میں نہیں
      آج بھی وقت کو ہم ساز شبستاں کرنا
      حُسنِ وِجدان کی تذلیل ہوا کرتے ہیں
      گاؤں جب شہر میں تبدیل ہوا کرتے ہیں
      مُفلسی دھات کت سکّوں کو جنم دیتی ہے
      زندگی موت کے چکلوں کو جنم دیتی ہے
      روحیں تہذیب کے شعلوں سے کچل جاتی ہیں
      کونپلیں ریل کے پہیوں میں کچل جاتی ہیں
      قہقہے جلتے ہوئے گوشت کی بو دیتے ہیں
      اسپتالوں کو جراثیم نمو دیتے ہیں
      خون بھی ملتا ہے ہوٹل میں رگِ تاک کے ساتھ
      عمداً زہر دیا جاتا ہے خوراک کے ساتھ
      اُسی منڈی میں جہاں صاف کفن بکتا ہے
      جنم بکتے ہیں ، ادب بکتا ہے ، فن بکتا ہے
      شورشیں کرتی ہیں خاموش ہوا میں پرواز
      بم گراتے ہیں اندھیرے میں فریقوں کے جہاز
      زندگی گیس نگلتی ہے ، ہوا پھانکتی ہے
      رشتے داروں کی نگاہوں سے ریا جھانکتی ہے
      دل پہ ڈگری کا فسوں چلتا ہے تیروں کے عوض
      دھڑکنیں دل کی مزاروں کو ضیا دیتی ہیں
      عصمتیں ریشِ مقدّس کو دُعا دیتی ہیں
      کون بن سکتا ہے سنسان کنووں کا ہم راز
      کون سنتا ہے سمندر میں رہَٹ کی آواز
      کون سا کیف ہے دیہات کے رومانوں میں
      کس کو لطف آئے گا چوپال کے افسانوں میں
      کوئی بھی دولتِ لمحات نہیں کھو سکتا
      کوئی بھی دار کے سائے میں نہیں سو سکتا
      دار کی چھاؤں میں سوتے ہوئے ہونٹوں پہ مجھے
      جانے کیوں موت کا رہ رہ کے خیال آتا ہے

      یہ نہیں ہے مرے واسطے انجامِ حیات
      اتنا پر ہول تصوّر ہے کہ میں ڈرتا ہوں

      یہ نہیں ہے کہ مصائب سے ہراساں ہو کر
      میں تخیّل کے طرب زار کا دم بھرتا ہوں
      موت تو میرے لیے ایک تاثر ہے جسے
      اک نہ اک راز ہم انسان دبا ہی لیں گے
      اس دکھاوے کے تمدّن سے نکل کر اک روز
      اپنے انجام کے اس راز کو پا ہی لیں گے

      مجھ کو صرف یہ کہنا ہے کہ اس عالم میں
      مجھ کو اک لمحۂ بیدار کی قوّت دے دو
      مجھ کو سوتے ہوئے ہونٹوں پہ ترس آتا ہے
      کوئی فنکار ، کوئی زندہ مصوّر ہرگز
      حُسنِ خوابیدہ سے انکار نہیں کر سکتا
      اور میں ! جس نے ان آنکھوں کی پرستش کی ہے
      جس نے ان ہونٹوں کو انکار میں بھی پوجا ہے
      کس طرح اپنے مقدّر کو بُرا کہ دوں گا ؟
      تم کو اس کا بھی پتا ہے کہ وہ تہذیب جسے
      میں نے قصبوں کی تباہی کا سبب سمجھا ہے
      اپنے ہر نقص کے با وصف مری اپنی ہے
      جن کو افراد نے تخریب بنا رکھا تھا
      درحقیقت وہی تعمیر کی بنیاد بھی ہے
      کوئی بھی مُلک تمدّن سے ہراساں ہو کر
      اپنی فطرت کو نہ سمجھا نہ سمجھ سکتا ہے
      کوئی بھی دیس سسکتا ہوا چرخہ لے کر
      زیست کی جنگ میں ابھرا نہ ابھر سکتا ہے

      لعنتیں یوں تو مشینوں کی بہت ہیں لیکن
      لعنتیں صرف مشینوں سے نہیں اُگتی ہیں
      اِن میں اُس مُلک کا بھی ہاتھ ہوا کرتا ہے
      جس میں کچھ لوگ خود اپنی بقا کی خاطر
      دُوسرے لوگوں کے انفاس چُرا لیتے ہیں
      اور اس دوڑ کی رفتار میں اندھے ہو کر
      قحط پڑتا ہے تو کھلیان جلا دیتے ہیں

      چھین سکتا ہے ان افراد کی قوت جو نظام
      صرف اُس میں ہی بھبک سکتے ہیں تیزی سے عوام
      صرف اُس میں ہی اُگلتی نہیں لاوا تہذیب
      صرف اُس میں ہی نکھرتے ہیں بہاروں کے نصیب
      رقص ہوتا ہیں دیوانوں کی تلواروں کا
      کرنیں مُنہ چومنے آتی ہیں سمن زاروں کا
      ٹینک بڑھتے نہیں دامن تباہی لے کر
      پھُول ہنس پڑتے ہیں دھیرے سے جماہی لے کر
      بھائی اب زہر نہیں ڈھونڈتے بھائی کے لئے
      دھارے مڑ جاتے ہیں کھیتوں کی سنچائی کے لئے
      ریت کے بطن سے ہوتے ہیں نظارے پیدا
      سنگ کے سینے سے ہوتے ہیں شرارے پیدا
      کارخانوں میں تمدّن کو بقا ملتی ہے
      چمنیاں زہر کے انبار اُگلتی بھی نہیں
      گاؤں بھی شہر میں ہو جاتے ہیں تبدیل مگر
      روحیں تہذیب کے شعلوں سے پگھلتی بھی نہیں

      میرے دکھ درد کی ساتھی مری خوشیوں کی شریک
      شام کی مانگ سے افشاں کی لکیریں پھوٹیں
      آؤ ہم لوگ بھی اک عزم سے اک ہمّت سے
      اپنے بیتے ہوئے حالات کو ٹھکرا کے چلیں
      اپنی فرسودہ روایات کو ٹھکرا کے چلیں
      جشنِ نوروز کو گیتوں کی ضرورت ہو گی
      آؤ ریت پہ وہ نقشِ قدم چھوڑ چلیں
      جن کی آتی ہوئی نسلوں کو ضرورت ہوگی

      ٭٭٭


      Similar Threads:

    2. #2
      Star Member www.urdutehzeb.com/public_html Dr Danish's Avatar
      Join Date
      Aug 2015
      Posts
      3,237
      Threads
      0
      Thanks
      211
      Thanked 657 Times in 407 Posts
      Mentioned
      28 Post(s)
      Tagged
      1020 Thread(s)
      Rep Power
      510

      Re: نوروز

      Quote Originally Posted by intelligent086 View Post
      نوروز



      شام کی مانگ سے افشاں کی لکیریں پھوٹیں
      جشنِ نوروز میں دھرتی کے دریچے جاگے

      سرخیاں چونک اُٹھیں ، تیرگیاں ڈوب گئیں
      تم بھی جاگو کہ یہ اعلانِ سحر خواب نہیں


      درد کا بوجھ بھی تھا ، بارشِ الزام بھی تھی
      میرے دکھ درد کی ساتھی مری خوشیوں کی شریک
      جُرعۂ شہر میں کچھ تلخی ایّام بھی تھی
      پھر بھی ہم لوگ سویرے کی تمنّا لے کر
      رات سے تلخی ایّام سے لڑتے ہی رہے
      یوں تو اب بھی ہیں پر اسرار تمہاری آنکھیں
      اب سے پہلے مگر ان آنکھوں میں ہیجان بھی تھا
      ساز کی لہر بھی تھی ، سوز کا طُوفان بھی تھا
      اب مگر جھومتی گاتی ہوئی آنکھوں کا نصیب
      ساز کی لہر تو ہے سوز کا طوفان نہیں
      ریشمی ڈورے لچکتے ہیں بکھر جاتے ہیں
      نیم خوابیدہ اُداسی ہے صبُحی پہ مُحیط
      اوس کا ذائقہ ہونٹوں پہ جما جاتا ہے
      تشنگی اوس کے قطروں سے نہیں بجھ سکتی
      جاگ بھی جاؤ کہ یہ نیم نگاہی بے سود
      جاگ بھی جاؤ کہ سوتے ہوئے ہونٹوں پہ مجھے
      جانے کیوں موت کا رہ رہ کہ خیال آتا ہے
      ابدیت کے کئی راز بہت یکساں ہیں
      حسن اور موت کے انداز بہت یکساں ہیں
      جاگ بھی جاؤ کہ انسان کی قسمت میں نہیں
      آج بھی وقت کو ہم ساز شبستاں کرنا
      حُسنِ وِجدان کی تذلیل ہوا کرتے ہیں
      گاؤں جب شہر میں تبدیل ہوا کرتے ہیں
      مُفلسی دھات کت سکّوں کو جنم دیتی ہے
      زندگی موت کے چکلوں کو جنم دیتی ہے
      روحیں تہذیب کے شعلوں سے کچل جاتی ہیں
      کونپلیں ریل کے پہیوں میں کچل جاتی ہیں
      قہقہے جلتے ہوئے گوشت کی بو دیتے ہیں
      اسپتالوں کو جراثیم نمو دیتے ہیں
      خون بھی ملتا ہے ہوٹل میں رگِ تاک کے ساتھ
      عمداً زہر دیا جاتا ہے خوراک کے ساتھ
      اُسی منڈی میں جہاں صاف کفن بکتا ہے
      جنم بکتے ہیں ، ادب بکتا ہے ، فن بکتا ہے
      شورشیں کرتی ہیں خاموش ہوا میں پرواز
      بم گراتے ہیں اندھیرے میں فریقوں کے جہاز
      زندگی گیس نگلتی ہے ، ہوا پھانکتی ہے
      رشتے داروں کی نگاہوں سے ریا جھانکتی ہے
      دل پہ ڈگری کا فسوں چلتا ہے تیروں کے عوض
      دھڑکنیں دل کی مزاروں کو ضیا دیتی ہیں
      عصمتیں ریشِ مقدّس کو دُعا دیتی ہیں
      کون بن سکتا ہے سنسان کنووں کا ہم راز
      کون سنتا ہے سمندر میں رہَٹ کی آواز
      کون سا کیف ہے دیہات کے رومانوں میں
      کس کو لطف آئے گا چوپال کے افسانوں میں
      کوئی بھی دولتِ لمحات نہیں کھو سکتا
      کوئی بھی دار کے سائے میں نہیں سو سکتا
      دار کی چھاؤں میں سوتے ہوئے ہونٹوں پہ مجھے
      جانے کیوں موت کا رہ رہ کے خیال آتا ہے

      یہ نہیں ہے مرے واسطے انجامِ حیات
      اتنا پر ہول تصوّر ہے کہ میں ڈرتا ہوں

      یہ نہیں ہے کہ مصائب سے ہراساں ہو کر
      میں تخیّل کے طرب زار کا دم بھرتا ہوں
      موت تو میرے لیے ایک تاثر ہے جسے
      اک نہ اک راز ہم انسان دبا ہی لیں گے
      اس دکھاوے کے تمدّن سے نکل کر اک روز
      اپنے انجام کے اس راز کو پا ہی لیں گے

      مجھ کو صرف یہ کہنا ہے کہ اس عالم میں
      مجھ کو اک لمحۂ بیدار کی قوّت دے دو
      مجھ کو سوتے ہوئے ہونٹوں پہ ترس آتا ہے
      کوئی فنکار ، کوئی زندہ مصوّر ہرگز
      حُسنِ خوابیدہ سے انکار نہیں کر سکتا
      اور میں ! جس نے ان آنکھوں کی پرستش کی ہے
      جس نے ان ہونٹوں کو انکار میں بھی پوجا ہے
      کس طرح اپنے مقدّر کو بُرا کہ دوں گا ؟
      تم کو اس کا بھی پتا ہے کہ وہ تہذیب جسے
      میں نے قصبوں کی تباہی کا سبب سمجھا ہے
      اپنے ہر نقص کے با وصف مری اپنی ہے
      جن کو افراد نے تخریب بنا رکھا تھا
      درحقیقت وہی تعمیر کی بنیاد بھی ہے
      کوئی بھی مُلک تمدّن سے ہراساں ہو کر
      اپنی فطرت کو نہ سمجھا نہ سمجھ سکتا ہے
      کوئی بھی دیس سسکتا ہوا چرخہ لے کر
      زیست کی جنگ میں ابھرا نہ ابھر سکتا ہے

      لعنتیں یوں تو مشینوں کی بہت ہیں لیکن
      لعنتیں صرف مشینوں سے نہیں اُگتی ہیں
      اِن میں اُس مُلک کا بھی ہاتھ ہوا کرتا ہے
      جس میں کچھ لوگ خود اپنی بقا کی خاطر
      دُوسرے لوگوں کے انفاس چُرا لیتے ہیں
      اور اس دوڑ کی رفتار میں اندھے ہو کر
      قحط پڑتا ہے تو کھلیان جلا دیتے ہیں

      چھین سکتا ہے ان افراد کی قوت جو نظام
      صرف اُس میں ہی بھبک سکتے ہیں تیزی سے عوام
      صرف اُس میں ہی اُگلتی نہیں لاوا تہذیب
      صرف اُس میں ہی نکھرتے ہیں بہاروں کے نصیب
      رقص ہوتا ہیں دیوانوں کی تلواروں کا
      کرنیں مُنہ چومنے آتی ہیں سمن زاروں کا
      ٹینک بڑھتے نہیں دامن تباہی لے کر
      پھُول ہنس پڑتے ہیں دھیرے سے جماہی لے کر
      بھائی اب زہر نہیں ڈھونڈتے بھائی کے لئے
      دھارے مڑ جاتے ہیں کھیتوں کی سنچائی کے لئے
      ریت کے بطن سے ہوتے ہیں نظارے پیدا
      سنگ کے سینے سے ہوتے ہیں شرارے پیدا
      کارخانوں میں تمدّن کو بقا ملتی ہے
      چمنیاں زہر کے انبار اُگلتی بھی نہیں
      گاؤں بھی شہر میں ہو جاتے ہیں تبدیل مگر
      روحیں تہذیب کے شعلوں سے پگھلتی بھی نہیں

      میرے دکھ درد کی ساتھی مری خوشیوں کی شریک
      شام کی مانگ سے افشاں کی لکیریں پھوٹیں
      آؤ ہم لوگ بھی اک عزم سے اک ہمّت سے
      اپنے بیتے ہوئے حالات کو ٹھکرا کے چلیں
      اپنی فرسودہ روایات کو ٹھکرا کے چلیں
      جشنِ نوروز کو گیتوں کی ضرورت ہو گی
      آؤ ریت پہ وہ نقشِ قدم چھوڑ چلیں
      جن کی آتی ہوئی نسلوں کو ضرورت ہوگی

      ٭٭٭
      Umda Intekhab
      Sharing ka shukariya


    3. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: نوروز

      Quote Originally Posted by Dr Danish View Post
      Umda Intekhab
      Sharing ka shukariya
      پسندیدگی کا شکریہ



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •