سایہ
تمام شہر پہ آسیب سا مسلط ہے
دھُواں دھُواں ہیں دریچے ہوا نہیں آتی
ہر ایک سمت سے چیخیں سنائ دیتی ہیں
صدائے ہم نفس و آشنا نہیں آتی
گھنے درخت ، درو بام ، نغمہ و فانوس
تمام سحر و طلسمات و سایہ و کابوس
ہر ایک راہ پر آوازِ پائے نا معلوم
ہر ایک موڑ پہ ارواحِ زِشت و بد کا جلوس
سفید چاند کی اجلی قبائے سیمیں پر
سیاہ و سرد کفن کا گماں گزرتا ہے
فَضا کے تخت پہ چمگادڑوں کے حلقے ہیں
کوئ خلا کی گھنی رات سے اترتا ہے
٭٭٭
Similar Threads:
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks