SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: بہ نام وطن

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      بہ نام وطن



      بہ نام وطن






      کون ہے جو آج طلبگار ِ نیاز و تکریم
      وہی ہر عہد کا جبروت وہی کل کے لئیم
      وہی عیّار گھرانے وہی ، فرزانہ حکیم
      وہی تم ، لائق صد تذکرۂ و صد تقویم
      تم وہی دُشمن ِ احیائے صدا ہو کہ نہیں
      پسِ زنداں یہ تمہی جلوہ نما ہو کہ نہیں


      تم نے ہر عہد میں نسلوں سے غدّاری کی
      تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی
      اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی خود داری کی
      خوف کو رکھ لیا خدمت پہ کمانداری کی
      آج تم مجھ سے مری جنس ِ گراں مانگتے ہو
      حَلَفِ ذہن و وفا داریِ جاں مانگتے ہو


      جاؤ یہ چیز کسی مدح سرا سے مانگو
      طائفے والوں سے ڈھولک کی صدا سے مانگو
      اپنے دربانوں سے بدتر فقرا سے مانگو
      اپنے دربار کے گونگے شُعرا سے مانگو
      مجھ سے پوچھو ے تو خنجر سے عُدو بولے گا
      گردنیں کاٹ بھی دو گے تو لہو بولے گا


      تم نے ہر دور میں دانش پہ کئی وار کئے
      جبر کے منہ میں دہکتے ہوئے الفاظ دِیے
      اپنی آسائش ِ یک عُمر ِ گریزاں کے لِیے
      سب کو تاراج کیا تم نے مگر تم نہ جیے
      علم نے خونِ رگِ جاںدیا اور نہ مَرا
      علم نے زہر کا پیمانہ پیا اور نہ مَرا


      علم سقراط کی آواز ہے عیسےٰ کا لہو
      علم گہوارہ و سیّارہ و انجام و نُمو
      عِلم عبّاس علمدار کے زخمی بازُو
      علم بیٹے کی نئی قبر پہ ماں کے آنسو
      وادئ ابر میں قطروں کو ترس جائے گا
      جو ان اشکوں پہ ہنسے گا وہ جھلس جائے گا


      تم ہی بتلاؤ کہ میں کس کا وفادار بنوں
      عصمتِ حرف کا یا دار کا غمخوار بنوں
      مشعلوں کا یا اندھیروں کا طلبگار بنوں
      کس کے خرمن کے لیے شعلۂ اسرار بنوں
      کون سے دل سے تمہیں ساعتِ فردا دے دوں
      قاتلوں کو نفسِ حضرتِ عیسیٰ دے دوں


      صُبح ِ کاشی کا ترنّم مری آواز میں ہے
      سندھ کی شام کا آہنگ مرے ساز میں ہے
      کوہساروں کی صلابت مرے ایجاز میں ہے
      بال ِ جبریل کی آہٹ مری پرواز میں ہے
      یہ جبیں کون سی چوکھٹ پہ جھکے گی بولو
      کس قفس سے مری پرواز رُکے گی بولو


      کس قفس سے غمِ دل قید ہوا ہے اب تک
      کس کے فرمان کی پابند ہے رفتار ِ فلک
      کون سی رات نے روکی ہے ستاروں کی چمک
      کس کی دیوار سے سمٹی ہے چنبیلی کی مہک
      دشتِ ایثار میں کب آبلہ پا رُکتا ہے
      کون سے بند سے سیلابِ وفا رُکتا ہے


      بہ وفاداریِ رہ وار و بہ تکریمِ علم
      بہ گہرباریِ الفاظ صنادیدِ عجم
      بہ صدائے جرس قافلۂ اہلِ قلم
      مجھ کو ہر قطرۂ خُون ِ شُہدا تیری قسم
      منزلیں آ کے پُکاریں گی سفر سے پہلے
      جھُک پڑے گا در ِ زنداں مرے سر سے پہلے


      آج تم رام کے مونس نہ ہنومان کے دوست
      تم نہ کافر کے ثنا خواں نہ مُسلمان کے دوست
      نہ تم الحاد کے حامی ہو نہ ایمان کے دوست
      تم نہ اشلوک کے حامی ہو نہ قرآن کے دوست
      تم تو سکّوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں
      اپنی ماؤں کو اٹھا لاتے ہو بازاروں میں


      ذہن پر خوف کی بنیاد اٹھانے والوں
      ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اُگانے والوں
      گیت کے شہر کو بندوق سے ڈھانے والوں
      فکر کی راہ میں بارُود بچھانے والوں
      کب تک اس شاخِ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی
      کونپلیں آج نہ پھُوٹیں گی تو کل پھُوٹیں گی


      کس پہ لبّیک کہو گے کہ نہ ہوگی باہم
      جوہری بم کی صدا اور صدائے گوتم
      رزق برتر ہے کہ شعلہ بداماں ایٹم
      گھر کے چُولھے سے اُترتی ہوئی روٹی کی قسم
      زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کلی اچھی ہے
      خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے


      ہو گئے راکھ جو کھلیان اُنہیں دیکھا ہے
      ایک اک خوشۂ گندم تمہیں کیا کہتا ہے
      ایک اک گھاس کی پتّی کا فسانہ کیا ہے
      آگ اچھی ہے کہ دستور ِ نمو اچھا ہے
      محفلوں میں جو یونہی جام لہو کے چھلکے
      تم کو کیا کہ کے پُکاریں گے مورّخ کل کے؟


      بُوٹ کی نوک سے قبروں کو گرانے والو
      تمغۂ مکر سے سینوں کو سجانے والوں
      کشتیاں دیکھ کے طوفان اُٹھانے والوں
      برچھیوں والو ، کماں والو ، نشانے والوں
      دل کی درگاہ میں پندار مِٹا کر آؤ
      اپنی آواز کی پلکوں کو جھُکا کر آؤ


      کیا قیامت ہے کہ ذرّوں کی زباں جلتی ہے
      مصر میں جلوۂ یوسف کی دکاں جلتی ہے
      عصمتِ دامنِ مریم کی فغاں جلتی ہے
      بھیم کا گرز اور ارجن کی کماں جلتی ہے
      چوڑیاں روتی ہیں پیاروں کی جدائی کی طرح
      زندگی ننگی ہے بیوہ کی کلائی کی طرح


      صاحبانِ شبِ دیجور سحر مانگتے ہیں
      پیٹ کے زمزمہ خواں دردِ جگر مانگتے ہیں
      کور دل خیر سے شاہیں کی نظر مانگتے ہیں
      آکسیجن کے تلے عمر خضر مانگتے ہیں
      اپنے کشکول میں ایوانِ گُہر ڈھونڈتے ہیں
      اپنے شانوں پہ کسی اور کا سر ڈھونڈتے ہیں


      تو ہی بول اے درِ زنداں ، شبِ غم تو ہی بتا
      کیا یہی ہے مرے بے نام شہیدوں کا پتا
      کیا یہی ہے مرے معیارِ جنوں کا رستا
      دل دہلتے ہیں جو گرتا ہے سڑک پر پتّا
      اک نہ اک شورشِ زنجیر ہے جھنکار کے ساتھ
      اک نہ اک خوف لگا بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ


      اتنی ویراں تو کبھی صبح بیاباں بھی نہ تھی
      اتنی پر خار کبھی راہِ مغیلاں بھی نہ تھی
      کوئی ساعت کبھی اِس درجہ گریزاں بھی نہ تھی
      اتنی پُر ہول کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی
      اے وطن کیسے یہ دھبّے در و دیوار پہ ہیں
      کس شقی کے یہ طمانّچے ترے رُخسار پہ ہیں


      اے وطن یہ ترا اُترا ہوا چہرہ کیوں ہے
      غُرفہ و بامِ شبستاں میں اندھیرا کیوں ہے
      درد پلکوں سے لہو بن کے چھلکتا کیوں ہے
      ایک اک سانس پہ تنقید کا پہرا کیوں ہے
      کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اُٹھا لی تجھ سے
      چھین لی کس نے ترے کان کی بالی تجھ سے

      رودِ راوی ترے ممنونِ کرم کیسے ہیں
      صنعتیں کیسی ہیں تہذیب کے خم کیسے ہیں
      اے ہڑپّہ ترے مجبور قدم کیسے ہیں
      بول اے ٹیکسلا تیرے صنم کیسے ہیں
      ذہن میں کون سے معیار ہیں برنائی کے
      مانچسٹر کے لبادے ہیں کہ ہرنائی کے


      عسکریت بڑی شے ہے کہ محبّت کے اصول
      بولہب کا گھرانہ ہے کہ درگاہِ رسول
      طبل و لشکر مُتبرّک ہیں کہ تطہیرِ بُتول
      مسجدیں علم کا گھر ہیں کہ مشن کے اسکول
      آج جو بیتی ہے کیا کل بھی یہی بیتے گی
      بینڈ جیتے گا یا شاعر کی غزل جیتے گی
      ٭٭٭


      Similar Threads:

    2. #2
      Star Member www.urdutehzeb.com/public_html Dr Danish's Avatar
      Join Date
      Aug 2015
      Posts
      3,237
      Threads
      0
      Thanks
      211
      Thanked 657 Times in 407 Posts
      Mentioned
      28 Post(s)
      Tagged
      1020 Thread(s)
      Rep Power
      510

      Re: بہ نام وطن

      Quote Originally Posted by intelligent086 View Post


      بہ نام وطن






      کون ہے جو آج طلبگار ِ نیاز و تکریم
      وہی ہر عہد کا جبروت وہی کل کے لئیم
      وہی عیّار گھرانے وہی ، فرزانہ حکیم
      وہی تم ، لائق صد تذکرۂ و صد تقویم
      تم وہی دُشمن ِ احیائے صدا ہو کہ نہیں
      پسِ زنداں یہ تمہی جلوہ نما ہو کہ نہیں


      تم نے ہر عہد میں نسلوں سے غدّاری کی
      تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی
      اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی خود داری کی
      خوف کو رکھ لیا خدمت پہ کمانداری کی
      آج تم مجھ سے مری جنس ِ گراں مانگتے ہو
      حَلَفِ ذہن و وفا داریِ جاں مانگتے ہو


      جاؤ یہ چیز کسی مدح سرا سے مانگو
      طائفے والوں سے ڈھولک کی صدا سے مانگو
      اپنے دربانوں سے بدتر فقرا سے مانگو
      اپنے دربار کے گونگے شُعرا سے مانگو
      مجھ سے پوچھو ے تو خنجر سے عُدو بولے گا
      گردنیں کاٹ بھی دو گے تو لہو بولے گا


      تم نے ہر دور میں دانش پہ کئی وار کئے
      جبر کے منہ میں دہکتے ہوئے الفاظ دِیے
      اپنی آسائش ِ یک عُمر ِ گریزاں کے لِیے
      سب کو تاراج کیا تم نے مگر تم نہ جیے
      علم نے خونِ رگِ جاںدیا اور نہ مَرا
      علم نے زہر کا پیمانہ پیا اور نہ مَرا


      علم سقراط کی آواز ہے عیسےٰ کا لہو
      علم گہوارہ و سیّارہ و انجام و نُمو
      عِلم عبّاس علمدار کے زخمی بازُو
      علم بیٹے کی نئی قبر پہ ماں کے آنسو
      وادئ ابر میں قطروں کو ترس جائے گا
      جو ان اشکوں پہ ہنسے گا وہ جھلس جائے گا


      تم ہی بتلاؤ کہ میں کس کا وفادار بنوں
      عصمتِ حرف کا یا دار کا غمخوار بنوں
      مشعلوں کا یا اندھیروں کا طلبگار بنوں
      کس کے خرمن کے لیے شعلۂ اسرار بنوں
      کون سے دل سے تمہیں ساعتِ فردا دے دوں
      قاتلوں کو نفسِ حضرتِ عیسیٰ دے دوں


      صُبح ِ کاشی کا ترنّم مری آواز میں ہے
      سندھ کی شام کا آہنگ مرے ساز میں ہے
      کوہساروں کی صلابت مرے ایجاز میں ہے
      بال ِ جبریل کی آہٹ مری پرواز میں ہے
      یہ جبیں کون سی چوکھٹ پہ جھکے گی بولو
      کس قفس سے مری پرواز رُکے گی بولو


      کس قفس سے غمِ دل قید ہوا ہے اب تک
      کس کے فرمان کی پابند ہے رفتار ِ فلک
      کون سی رات نے روکی ہے ستاروں کی چمک
      کس کی دیوار سے سمٹی ہے چنبیلی کی مہک
      دشتِ ایثار میں کب آبلہ پا رُکتا ہے
      کون سے بند سے سیلابِ وفا رُکتا ہے


      بہ وفاداریِ رہ وار و بہ تکریمِ علم
      بہ گہرباریِ الفاظ صنادیدِ عجم
      بہ صدائے جرس قافلۂ اہلِ قلم
      مجھ کو ہر قطرۂ خُون ِ شُہدا تیری قسم
      منزلیں آ کے پُکاریں گی سفر سے پہلے
      جھُک پڑے گا در ِ زنداں مرے سر سے پہلے


      آج تم رام کے مونس نہ ہنومان کے دوست
      تم نہ کافر کے ثنا خواں نہ مُسلمان کے دوست
      نہ تم الحاد کے حامی ہو نہ ایمان کے دوست
      تم نہ اشلوک کے حامی ہو نہ قرآن کے دوست
      تم تو سکّوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں
      اپنی ماؤں کو اٹھا لاتے ہو بازاروں میں


      ذہن پر خوف کی بنیاد اٹھانے والوں
      ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اُگانے والوں
      گیت کے شہر کو بندوق سے ڈھانے والوں
      فکر کی راہ میں بارُود بچھانے والوں
      کب تک اس شاخِ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی
      کونپلیں آج نہ پھُوٹیں گی تو کل پھُوٹیں گی


      کس پہ لبّیک کہو گے کہ نہ ہوگی باہم
      جوہری بم کی صدا اور صدائے گوتم
      رزق برتر ہے کہ شعلہ بداماں ایٹم
      گھر کے چُولھے سے اُترتی ہوئی روٹی کی قسم
      زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کلی اچھی ہے
      خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے


      ہو گئے راکھ جو کھلیان اُنہیں دیکھا ہے
      ایک اک خوشۂ گندم تمہیں کیا کہتا ہے
      ایک اک گھاس کی پتّی کا فسانہ کیا ہے
      آگ اچھی ہے کہ دستور ِ نمو اچھا ہے
      محفلوں میں جو یونہی جام لہو کے چھلکے
      تم کو کیا کہ کے پُکاریں گے مورّخ کل کے؟


      بُوٹ کی نوک سے قبروں کو گرانے والو
      تمغۂ مکر سے سینوں کو سجانے والوں
      کشتیاں دیکھ کے طوفان اُٹھانے والوں
      برچھیوں والو ، کماں والو ، نشانے والوں
      دل کی درگاہ میں پندار مِٹا کر آؤ
      اپنی آواز کی پلکوں کو جھُکا کر آؤ


      کیا قیامت ہے کہ ذرّوں کی زباں جلتی ہے
      مصر میں جلوۂ یوسف کی دکاں جلتی ہے
      عصمتِ دامنِ مریم کی فغاں جلتی ہے
      بھیم کا گرز اور ارجن کی کماں جلتی ہے
      چوڑیاں روتی ہیں پیاروں کی جدائی کی طرح
      زندگی ننگی ہے بیوہ کی کلائی کی طرح


      صاحبانِ شبِ دیجور سحر مانگتے ہیں
      پیٹ کے زمزمہ خواں دردِ جگر مانگتے ہیں
      کور دل خیر سے شاہیں کی نظر مانگتے ہیں
      آکسیجن کے تلے عمر خضر مانگتے ہیں
      اپنے کشکول میں ایوانِ گُہر ڈھونڈتے ہیں
      اپنے شانوں پہ کسی اور کا سر ڈھونڈتے ہیں


      تو ہی بول اے درِ زنداں ، شبِ غم تو ہی بتا
      کیا یہی ہے مرے بے نام شہیدوں کا پتا
      کیا یہی ہے مرے معیارِ جنوں کا رستا
      دل دہلتے ہیں جو گرتا ہے سڑک پر پتّا
      اک نہ اک شورشِ زنجیر ہے جھنکار کے ساتھ
      اک نہ اک خوف لگا بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ


      اتنی ویراں تو کبھی صبح بیاباں بھی نہ تھی
      اتنی پر خار کبھی راہِ مغیلاں بھی نہ تھی
      کوئی ساعت کبھی اِس درجہ گریزاں بھی نہ تھی
      اتنی پُر ہول کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی
      اے وطن کیسے یہ دھبّے در و دیوار پہ ہیں
      کس شقی کے یہ طمانّچے ترے رُخسار پہ ہیں


      اے وطن یہ ترا اُترا ہوا چہرہ کیوں ہے
      غُرفہ و بامِ شبستاں میں اندھیرا کیوں ہے
      درد پلکوں سے لہو بن کے چھلکتا کیوں ہے
      ایک اک سانس پہ تنقید کا پہرا کیوں ہے
      کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اُٹھا لی تجھ سے
      چھین لی کس نے ترے کان کی بالی تجھ سے

      رودِ راوی ترے ممنونِ کرم کیسے ہیں
      صنعتیں کیسی ہیں تہذیب کے خم کیسے ہیں
      اے ہڑپّہ ترے مجبور قدم کیسے ہیں
      بول اے ٹیکسلا تیرے صنم کیسے ہیں
      ذہن میں کون سے معیار ہیں برنائی کے
      مانچسٹر کے لبادے ہیں کہ ہرنائی کے


      عسکریت بڑی شے ہے کہ محبّت کے اصول
      بولہب کا گھرانہ ہے کہ درگاہِ رسول
      طبل و لشکر مُتبرّک ہیں کہ تطہیرِ بُتول
      مسجدیں علم کا گھر ہیں کہ مشن کے اسکول
      آج جو بیتی ہے کیا کل بھی یہی بیتے گی
      بینڈ جیتے گا یا شاعر کی غزل جیتے گی
      ٭٭٭
      Umda Intekhab
      Sharing ka shukariya


    3. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: بہ نام وطن

      Quote Originally Posted by Dr Danish View Post
      Umda Intekhab
      Sharing ka shukariya
      پسندیدگی کا شکریہ



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •