ساعتِ جہد
دیکنا اہلِ جنوں ساعتِ شب آ پہنچی
اب کوئی نقش بدیوار نہ ہونے پائے
اب کے کھل جائیں خزانے نفسِ سوزاں کے
اب کے محرومی اظہار نہ ہونے پائے
یہ جو غدّار ہے اپنی ہی صفِ اوّل میں
غیر کے ہاتھ کی تلوار نہ ہونے پائے
یوں تو ہے جوہرِ گفتار بڑا وصف مگر
وجہ بیماری گفتار نہ ہونے پائے
دشت میں خونِ حسین ابنِ علی بہ جائے
بیعتِ حاکمِ کفّار نہ ہونے پائے
نئی نسل اس انداز سے نکلے سرِ رزم
کہ مورّخ کی گُنہ گار نہ ہونے پائے
٭٭٭
Similar Threads:
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks