نظروں پہ ستم دل پہ جفا ہو کر رہے گی

ہے جرم محبت تو سزا ہو کر رہے گی


اس درجہ ہو دل ان کی عنایت پہ نہ مسرور
اک دن یہی دو دن کی ہوا ہو کر رہے گی

اے رہروِ مے خانہ تو جنت کا غم نہ کر
جنت ترے قدموں پے فدا ہو کر رہے گی

اب تو غمِ جاناں بھی سکوں بخش نہیں ہے
کیا یہ خلش دل سے جدا ہو کے رہے گی

کیوں خوش نہ ہو دل بزم تصور کی بنا پر
دنیا تو نہیں ہے کہ فنا ہو کر رہے گی

احساس میں شامل ہے اگر حسنِ صداقت
آوازِ دل آوازِ خدا ہو کے رہے گی

اے حُسنِ پشیماں مری آنکھوں سے نہ گھبرا
ہر آہ ترے حق میں دُعا ہو کے رہے گی

برہم جو شکیل ان کی نظر ہو تو بلا سے
دیکھوں وہ کہاں مجھ سے خفا ہو کے رہے گی




Similar Threads: