رو برو آئینے کے، تو جو مری جاں ہوگا
آئینہ ایک طرف، عکس بھی حیراں ہوگا

اے جوانی، یہ ترے دم کے ہیں، سارے جھگڑے

تو نہ ہوگی، تو نہ یہ دل ، نہ یہ ارماں ہوگا


دستِ وحشت تو سلامت ہے، رفو ہونے دو
ایک جھٹکے میں نہ دامن نہ گریباں ہوگا

آگ دل میں جو لگی تھی، وہ بجھائی نہ گئی
اور کیا تجھ سے، پھر اے دیدۂ گریاں ہوگا

اپنے مرنے کا تو کچھ غم نہیں، یہ غم ہے، امیر
چارہ گر مفت میں بیچارہ پشیماں ہوگا

اچھے عیسیٰ ہو، مریضوں کا خیال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہیں، تم کہتے ہو حال اچھا ہے

تجھ سے مانگوں میں تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے
سَو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے

دیکھ لے بلبل و پروانہ کی بے تابی کو
ہجر اچھا، نہ حسینوں کا وصال اچھا ہے

آگیا اس کا تصور، تو پکارا یہ شوق
دل میں جم جائے الہٰی، یہ خیال اچھا ہے

برق اگر گرمیِ رفتار میں اچھی ہے امیر
گرمیِ حسن میں وہ برق جمال اچھا ہے
٭٭٭



Similar Threads: