وصل ہو جائے یہیں حشر ، حشر میں کیا رکھا ہے

آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے

محتسب پوچھ نہ تو شیشے میں کیا رکھا ہے

پارسائی کا لہو اس میں بھرا رکھا ہے

کہتے ہیں آئے جوانی تو یہ چوری نکلے
میرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے


اس تغافل میں بھی سرگرمِ ستم وہ آنکھیں
آپ تو سوتے ہیں، فتنوں کو جگا رکھا ہے

آدمی زاد ہیں دنیا کے حسیں ،لیکن امیر
یار لوگوں نے پری زاد بنا رکھا ہے
٭٭٭


Similar Threads: