تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے
ساقیا! ہلکی سی لا اِن کے لیے

جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے

ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
سادگی گہنا ہے اس سِن کے لیے

ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے

وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

باغباں! کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں ایک کمسِن کے لیے

کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے

سب حسیں ہیں زاہدوں کو نا پسند
اب کوئی حور آئے گی اِن کے لئے

صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیر
بھیجتے تحفہ موذِّن کے لیے

میری تربت پر اگر آئیے گا
عمرِ رفتہ کو بھی بُلوائیے گا

سب کی نظروں پہ نہ چڑھیے اتنا
دیکھیے دل سے اُتر جائیے گا

آئیے نزع میں بالیں پہ مری
کوئی دم بیٹھ کے اُٹھ جائیے گا

وصل میں بوسۂ لب دے کے کہا
مُنہ سے کچھ اور نہ فرمائیے گا

ہاتھ میں نے جو بڑھایا تو کہا
بس، بہت پاؤں نہ پھیلائیے گا

زہر کھانے کو کہا، تو، بولے
ہم جلا لیں گے جو مر جائیے گا

حسرتیں نزع میںبولیں مُجھ سے
چھوڑ کر ہم کو کہاں جائیے گا

آپ سنیے تو کہانی دل کی
نیند آ جائے گی سو جائیے گا

اتنی گھر جانے کی جلدی کیا ہے؟
بیٹھیے ، جائیے گا، جائیے گا


کہتے ہیں، کہہ تو دیا، آئیں گے
اب یہ کیا چِڑ ہے کہ کب آئیے گا

ڈبڈبائے مرے آنسو تو کہا
روئیے گا تو ہنسے جائیے گا

رات اپنی ہے ٹھہرئیے تو ذرا
آئیے بیٹھئے، گھر جائیے گا

جس طرح عمر گزرتی ہے امیر
آپ بھی یونہی گزر جائیے گا
٭٭٭


Similar Threads: