میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد!
ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دلِ ناشاد
فکرِ تعمیر میں نہ رہ منعم
زندگانی کی کچھ بھی ہے بنیاد!
خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابے میں ہم ہوئے آباد
سنتے ہو ٹک سنو کہ پھر مجھ بعد
نہ سنو گے یہ نالہ و فریاد
بھُولا جا ہے غمِ بُتاں میں جی
غرض آتا ہے پھر خدا ہی یاد
ہر طرف ہیں اسیر ہم آواز
باغ ہے گھر ترا تو اے صیاد
ہم کو مرنا یہ ہے کب ہوں کہیں
اپنی قیدِ حیات سے آزاد
نہیں صورت پذیر نقش اُس کا
یوں ہی تصدیع کھینچے ہے بہزاد
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote








Bookmarks