اے تو کہ یاں سے عاقبتِ کار جائے گا
غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا
موقوف حشر پر ہے سو آتی بھی وہ نہیں
کب درمیاں سے وعدۂ دیدار جائے گا
چھُوٹا جو میں قفس سے تو سب نے مجھے کہا
بے چارہ کیوں کے تاسرِدیوار جائے گا
دے گی نہ چین لذتِ زخم اُس شکار کو
جو کھا کے تیرے ہاتھ کی تلوار جائے گا
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا
آئے بِن اُس کے حال ہوا جائے ہے تغیر
کیا حال ہو گا پاس سے جب یار جائے گا
کوچے میں اُس کے رہنے سے باز آ وگرنہ میرؔ
اک دن تجھے وہ جان سے بھی مار جائے گا
Similar Threads:
Bookmarks