الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
عہد جوانی رو رو کاٹا پیر ی میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی
ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا
سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام
کوچے کے اُس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مے خانے میں
جُبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا
یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا اور دن کو جوں توں شام کیا
ساعدِ سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیے
بھُولے اُس کے قول و قسم پر ہائے خیالِ خام کیا
کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت ہے
استغنا کی چوگنی اُن نے جُوں جُوں میں ابرام کیا
ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
Similar Threads:
Bookmarks