Quote Originally Posted by Ali_ View Post

دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے، ترے ہونٹوں کے صراب
دشتِ تنہائی میں*، دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں*، ترے پہلو کے سمن اور گلاس


اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تری سانس کی آنچ
اپنی خشبو سے سلگتی ہوئی، مدھم مدھم
دور افق پار، چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر رہی ہے تری دلدار نظر کی شبنم


اس قدر پیار سے، اے جانِ جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہاتھ
یوں* گماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن، آ بھی گئی وصل کی رات



فیض احمد فیض

Wah Bohat Umda
Sharing ka shukariya