تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی
دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسےرات کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو
یہی تاریکی تو ہے غازۂ رخسارِ سحر
صبح ہونے ہی کو ہے اے دلِ بیتاب ٹھہرابھی زنجیر چھنکتی ہے پسِ پردۂ ساز
مطلق الحکم ہے شیرازۂ اسباب ابھی
ساغرِ ناب میں آنسو بھی ڈھلک جاتے ہیں
لغزشِ پا میں ہے پابندیِ آداب ابھیاپنے دیوانوں کو دیوانہ تو بن لینے دو
اپنے میخانوں کو میخانہ تو بن لینے دو
جلد یہ سطوتِ اسباب بھی اُٹھ جائے گی
یہ گرانباریِ آداب بھی اُٹھ جائے گیخواہ زنجیر چھنکتی ہی، چھنکتی ہی رہے
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out

Reply With Quote


Bookmarks