پیدا ہوا جی وثق سے جب سنگ میں کیڑا

پھر کیوں نہ پڑے زخم دل تنگ میں کیڑا

عکس لب جاں بخش سے جوں بیر بہیٹی
پھرتا ہے پڑا ایک قدح بنگ میں کیڑا

کیڑے کے پر انگیا میں لگا رادھکا بولی
ہے کرشن یہ کاٹے گا مرے انگ میں کیڑا

منہ چنگی نے فنکاری کی یہ لی جھجک کے
کیڑے نے کہا ہے ترے منہ چنگ میں کیڑا

جگنو کو نہ رکھ محرم شبنم میں، اری چھوڑ
ایک زہر بھرا میرے دل تنگ میں کیڑا

جھینگر کی آواز سن، مراقب ہو کہے یہ
مشغول عبادت عجب آہنگ میں کیڑا

لچھے ہیں یہ ریشم کے نہ یہ خط شعاعی
ہے مہر بھی ایک عالم نیرنگ میں کیڑا

ڈورے تری آنکھوں کے اگر دیکھے تو وہیں
ریشم کا لگے آئینے کے زنگ میں کیڑا

بوسیدہ لغت چھانٹے ہے، اللہ کرے پڑ جائے
اے شیخ تری عقل کے فرہنگ میں کیڑا

وہ مور و ملخ فوج مضامیں ہے مرے پاس
جس کے نہ مقابل ہو کسی ڈھنگ میں کیڑا


شدھ شدھ دستے شدھ پائی پڑھو تو
موذی نہ رہے سیکڑوں فرسنگ میں کیڑا

زاہد جو چمک جائے تو جوں کرمک شب تاب
بے پیچ کوئی مقعد پر تنگ میں کیڑا

چونکے یہ گرہ بند سے، سمجھے کہ در آیا
دارائی کے ایک نیفہ، خوش رنگ میں کیڑا

اس دور میں افسوس نہیں خواجوی کرمان
ہوتا تو بٹھاتا وہ ہر اک رنگ میں کیڑا

من بعد فنا، ناک سے ایک ناگ ہو نکلا
تھا کبر کا وہ جو سر ہو شنگ میں کیڑا

سائل ہو جکت بولنے پر مجھ سے تو وہیں
پڑ جائے تھی گاہ جگت جنگ میں کیڑا

انشا نے چھوا آبلہ، دل کو تو آیا
جان دار، سمندر نمط ، ایک چنگ میں کیڑا
٭٭٭





Similar Threads: