ذرے سرکش ہُوئے ، کہنے میں ہوائیں بھی نہیں
آسمانوں پہ کہیں تنگ نہ ہو جائے زمیں
آ کے دیوار پہ بیٹھی تھیں کہ پھر اُڑ نہ سکیں
تتلیاں بانجھ مناظر میں نظر بند ہُوئیں
پیڑ کی سانسوں میں چڑیا کا بدن کھنچتا گیا
نبض رُکتی گئی ، شاخوں کی رگیں کھلتی گئیں
ٹوٹ کر اپنی اُڑانوں سے ، پرندے آئے
سانپ کی آنکھیں درختوں پہ بھی اب اُگنے لگیں
شاخ در شاخ اُلجھتی ہیں رگیں پَیڑوں کی
سانپ سے دوستی ، جنگل میں نہ بھٹکائے کہیں
گود لے لی ہے چٹانوں نے سمندر سے نمی
جھوٹے پھُولوں کے درختوں پہ بھی خوشبوئیں ٹکیں
***
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote

Bookmarks