نیم خوابی کا فسوں ٹوٹ رہا ہو جیسے
آنکھ کا نیند سے دل چھُوٹ رہا ہو جیسے
رنگ پھیلا تھا لہُو میں نہ ستارہ چمکا
اب کے ہر لمس ترا جھُوٹ رہا ہو جیسے
پھر شفق ہُوئی کوچہ جاناں کی زمیں
آبلہ پاؤں کا پھر پھُوٹ رہا ہو جیسے
روشنی پائی نہیں ، رات بھی باقی ہے ابھی
چاند سے رابطہ مگر ٹوٹ رہا ہو جیسے!
سُرخ بیلیں تو ستونوں میں چڑھی ہیں لیکن
کوئی آنگن کا سکوں ، لُوٹ رہا ہو جیسے
***
Similar Threads:



 
				Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out 
		
		
					
						
					
						
  Reply With Quote
Bookmarks