Originally Posted by intelligent086 شوقِ رقص سے جب تک اُنگلیاں نہیں کھُلتیں پاؤں سے ہواؤں کے ، بیڑیاں نہیں کھُلتیں پیڑ کو دُعا دے کر کٹ گئی بہاروں سے پھُول اِتنے بڑھ آئے ، کھڑکیاں نہیں کھلتیں پھُول بن کی سیروں میں اور کون شامل تھا شوخی صبا سے تو بالیاں نہیں کھُلتیں حُسن کو سمجھنے کو عُمر چاہیے ، جاناں! دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھُلتیں کوئی موجۂ شیریں چُوم کر جگائے گی! سُورجوں کے نیزوں سے سیپیاں نہیں کھُلتیں ماں سے کیا کہیں گی دُکھ ہجر کا ، کہ خود پر بھی اِتنی چھوٹی عُمروں کی بچیاں نہیں کھلتیں شاخ شاخ سرگرداں ، کس کی جستجو میں ہیں کون سے سفر میں ہیں ، تتلیاں نہیں کھُلتیں آدھی رات کی چپ میں کس کی چاپ اُبھرتی ہے چھپ پہ کون آتا ہے ، سیڑھیاں نہیں کھُلتیں پانیوں کے چڑھنے تک حال کہہ سکیں اور پھر کیا قیامتیں گزریں ، بستیاں نہیں کھُلتیں *** Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Admin Thanks for sharing Keep it up .. Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks